خیبر پختونخواہ کے بلدیاتی انتخابات میں حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو شکست ہوئی تو وزیراعظم عمران خان نے تمام پارٹی عہدیداروں کو معطل کر دیا اور نئے لوگوں کو سامنے لانے کے لیے کمیٹی بھی بنا دی جس کے بعد وقتا فوقتا مختلف صوبوں اور پھر اضلاح کی سطح پر نئی تنظیم سازی کی جارہی ہے اب حال ہی میں ضلع راولپنڈی کی تنظیم سازی کی گئی جس میں تین اہم عہدوں پر عہدیداروں کا تقرر کیا گیا ہے جس میں پاکستان تحریک انصاف ضلع راولپنڈی کا صدر ایم پی اے واثق قیوم عباسی کو بنایا گیا جبکہ جنرل سیکرٹری چوہدری زبیر اور سینئر نائب صدر چوہدری محمد عظیم کو مقرر کیا گیا یہ نوجوان کافی متحرک ہیں لیکن انکی تقرری سے جہاں خوش آئند بات یہ ہے کہ نوجوان قیادت سامنے آئی اور نوجوانوں کو پارٹی کے عہدے دیے گئے تو وہیں پر دوسری جانب ایک بار پھر ایک شخصیت کو نظر انداز کیا گیا جنھوں نے پارٹی کے لیے گراں قدر خدمات سر انجام دیں جنھوں نے موجودہ این اے 59 جبکہ سابق این اے 52 سے 2013 کے الیکشن میں ناقابل شکست اور کئی سالوں سے مسلسل قومی اسمبلی کے ممبر اور وفاقی وزیر رہنے والے چوہدری نثار علی خان کے مدمقابل پہلا الیکشن لڑا اور 70 ہزار سے زائد ووٹ لے کر سبکو حیران کر دیا کرنل (ر) اجمل صابرراجہ جنھوں نے پاکستان تحریک انصاف کی این اے 59 میں بنیاد رکھی 2013 کے عام انتخابات میں شکست کے باوجود انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور عوام سے مسلسل رابطے میں رہے اور تحریک انصاف کا نام اس حلقے میں زندہ رکھا 2018 کے عام انتخابات میں انکو پارٹی ٹکٹ نہیں ملا انکی جگہ موجودہ وفاقی وزیر غلام سرور خان کو ٹکٹ دیا گیا اس فیصلے سے انھوں نے ناراض ہو کر آزاد الیکشن لڑنے کی بھی ٹھانی مگر پارٹی رہنماؤں نے ان سے ملاقات کر کے انکو سمجھایا کہ غلام سرور خان کو سپورٹ کریں اگر وہ دونوں حلقوں سے الیکشن جیت جاتے ہیں تو ضمنی انتخابات میں آپ کو ٹکٹ دیا جائے گا جس پر وہ ایک لولی پاپ لے کر خاموش ہوگئے الیکشن ہوئے اور نتائج آنے پر غلام سرور خان نے دونوں حلقوں سے کامیابی حاصل کی نتیجہ آنے کے بعد وہ لولی پاپ جو کرنل (ر)اجمل صابر راجہ کو دیا گیا تھا کہ وہ ضمنی انتخابات میں الیکشن لڑے گے انکو ٹکٹ دیا جائے وہ لولی پاپ ہی ثابت ہوا جب غلام سرور خان نے این اے 59 کے بجائے این اے 63 کی سیٹ کو چھوڑا اور وہاں سے الیکشن بھی اپنے بیٹے کو لڑایا مگر اس اہم فیصلے پر کرنل(ر) اجمل صابر راجہ نے خاموشی اختیار کی اسکے بعد پارٹی سطح پر بھی انکو نظر انداز کیا گیا پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد انکو کوئی اہم ذمہ داری یا عہدہ نہیں دیا گیا تمام لوگوں کو کہیں ناں کئی ایڈجسٹ کیا گیا کسی نہ کسی محکمے میں عہدے دے گئے کسی محکمے کا سربراہ بنایا گیا لیکن انکو ہمیشہ کی طرح یہاں بھی نظر انداز کیا گیا انکی قسمت کی دیوی تحریک انصاف کی حکومت بننے کے اڑھائی سال بعد مہربان ہوئی انکو راولپنڈی ویسٹ منیجمنٹ کمپنی کا چیئرمین اور راولپنڈی سے پاکستان تحریک انصاف کا جنرل سیکرٹری نامزد کیا گیا وہ دوبارہ سے پارٹی کی سطح پر نظر آنے لگے لیکن یہ پارٹی عہدہ بھی زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکا اور انکی جگہ چوہدری زبیر کو جنرل سیکرٹری بنا دیا گیا جس پر انھوں نے اور انکے ساتھ ضلعی صدر شہریار ریاض نے مخالفت کی لیکن وہ مخالفت کئی کام نہیں آئی اب جب معطل ہونے کے بعد نئے سرے سے دوبارہ عہدوں کی تقرریاں کی گئیں تو ایک بار پھر کرنل اجمل صابر راجہ کو یکسر نظر انداز کیا گیا انکی جگہ صدر کے لیے ایم پی اے واثق قیوم عباسی اور جنرل سیکرٹری کے لیے چوہدری زبیر کا تقرر کیا گیا ہے تو کیا اب ایسے میں کرنل اجمل صابر راجہ اور شہریار ریاض پارٹی کی سطح پر اس تقرری کے خلاف احتجاج کریں گے یا پھر پارٹی کے اس فیصلے کو تسلیم کریں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن بظاہر کرنل اجمل صابر راجہ کی مسلسل نظر اندازی اور انکی پر اسرار خاموشی اس بات کی طرف بھی اشارہ کر رہی ہے کہ کرنل اجمل صابر راجہ کوئی عنقریب بڑا فیصلہ کرنے والے ہے اب وہ فیصلہ کیا ہوگا وہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن انکی خاموشی کے پیچھے کوئی اہم بات ہے جسکا اعلان وہ جلد یا با دیر کریں گے
168