اقصی محمود/شعورعلم کا محتاج ہوتا ہے اور یہ شعور مطالعے سے ملتا ہے۔جب ہم کسی چیز کے بارے میں جاننے کی کوشش نہیں کریں گے تو ہمیں ُاس چیز کا علم کیسے ہو گا؟اور یہ علم صرف اور صرف مطالعے سے حاصل ہو گا۔ہم جتنا ٹیکنالوجی کے قریب جا رہے ہیں ُاتنا ہی کتابوں سے دوستی دم توڑتی جا رہی ہے،نوجوان نسل میں کتابوں سے دوری کا رجحان سنجیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ماضی میں کتاب پڑھنے کا ذوق اتنا تھا کہ کتاب پڑھے بنا نیند نہیں آتی تھی لیکن آج کل کی نسل لائبریری جانے کا تکلف بھی نہیں کرتی بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ موبائل فون میں ہی کتاب کو پڑھا جا سکتا ہے وقت نہ ملنے کی وجہ سے وہ لائبریری نہیں جا سکتے مزید یہ کہنا ہے کہ کتابیں مہنگی ہونے کی وجہ سے اب وہ خرید نہیں سکتے۔نصاب کی بھی اگر بات کی جائے تو دور جدید کی نسل صرف نوٹس پر ہی اتفاق کرتی ہے۔کتاب کو انسان کا دوست کہا گیا ہے کتاب کو انسان کا تنہائی کا ساتھی قرار دیا ہے۔دنیا کی مصروف ترین اقوام نے بھی کتاب سے رشتہ نہیں توڑا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ اپنے ہی ملک میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور اپنے تھوڑے وسائل کو کام میں لا کر اپنی ضرورتیں پوری کر رہے ہیں۔ مطالعے کی عادت اخلاقی،تہذیبی،معاشی،معاشرتی،ثقافتی،نفسیاتی،سائنسی اور دیگر علوم وفنون لطفیہ کو سنوارنے میں اہم خدمات سر انجام دیتی ہے۔ یہ معاشرے کو پروان چڑھاتی ہے۔ ہمیں انہی کی مدد سے اپنی قدیم روایات کا پتا چلتا ہے۔کتابیں زندگی کے ہر موڑ پر ہماری مدد کرتیں ہیں۔کتابیں آنے والی نسلوں کو نئے خیالات فراہم کرتیں ہیں۔کتابوں سے ایک مضبوط معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کتابوں سے رجحان ہٹتا جا رہا ہے۔اس کی جگہ اب سوشل میڈیا نے لے لی ہے۔اگر ہم اس کی مثال اپنی ذاتی زندگی سے لیں تو یہ کہنا بالکل غلط نہ ہو گا کہ جب سے کورونا کی وباء اس دنیا میں آئی ہے، بچوں سے لے کر اعلٰی تعلیم یافتہ لوگ بھی اب آن لائن تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اور اگر ُانہیں اپنے نصاب سے متعلقہ کچھ مواد چاہیے تو وہ گوگل سرچ کر کے لکھ لیتے ہیں نہ کہ وہ کتابوں میں سے ڈھونڈ کر کام کرتے ہیں۔ اس سے ایک بہت بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ اس سے انسان کی سوچ محدود سے محدود تر ہوتی جا رہی ہے۔اس میں وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ویسی نہیں رہی جیسے کہ مطالعے کے بعد ُاس کا کسی موضوع پر سوچنا ہوتا ہے۔کتابوں سے دوری در حقیقت علم سے دوری ہے۔کہتے ہیں کہ انسان کا کتاب سے بہت پرانا تعلق ہے۔کتاب انسان کے دماغ کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے۔ایک سرچ کے مطابق دنیا میں 25 فی صد لوگ کتابوں کو پڑھنے کا ذوق رکھتے ہیں، باقی (پچھتر) فی صد آبادی کتابوں سے دور ہے۔یہ علم ہی ہے جو انسان کو دوسری مخلوقات سے ممتاز و منفرد بناتی ہے۔پرانے زمانے میں لوگ کتابوں کو بہت اہمیت دیتے تھے اسی لیے وہم کامیاب بھی ہوئے۔علوم و فنون،فنون لطفیہ یعنی کہ زندگی میں پیش آنے والے واقعات اور ان سب کا حل سب کتابوں میں موجود ہوتا ہے۔پرانے زمانے کے لوگوں کے لیے کتاب ہی ُان کا سب کچھ ہوا کرتی تھی وہ ان کی معلومات میں جہاں اضافہ کرتی وہاں ُانہیں جدید علوم سے بھی روشناس کرواتی رہی اور ساتھ ہی ساتھ ان کے لیے تفریخ کا بھی باعث بنتی تھی۔جوں جوں ترقی ہوتی گئی کتاب تکیوں کے نیچے سے نکل کر شلفوں کی زینت بنتی گئی اور آج تک لوگوں نے اسے شلفیوں کی زینت بنا کہ رکھا ہوا ہے گھروں میں اگر کتابیں موجود ہیں تو وہ بھی صرف میز کی خوبصورتی کے علاوہ استعمال نہیں کی جاتیں کچھ لوگ کتاب پڑھنا چاہیں بھی تو کتاب ُان کی استطاعت سے باہر ہوتی ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ لوگ مہنگے لباس تو خرید سکتے ہیں مگر معلومات اور علم میں اضافے کے لیے ایک کتاب نہیں خرید سکتے ایک مہنگا اور خوبصورت لباس آپ کی ظاہری شخصیت تو ضرور نکھار سکتا ہے لیکن وہ آپ کے الفاظ کو شرینی نہیں بنا سکتا ہماری نوجوان نسل صرف اور صرف ڈگریوں کے لیے پڑھ رہی ہے انہیں معلومات حاصل کرنے سے کوئی غرض نہیں ہے وہ صرف اتنا ہی کام کرتے ہیں جتنا کہ انہیں کہا جاتا ہے۔ہمارا نوجوان اپنی تمام صلاحتیں ڈگری کے حصول پر صرف کر دیتا ہے آج کے نوجوان کے لیے علم کا ہونا نہیں بلکہ اچھے گریڈذ کا ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ دوستوں کا ایک گروپ سینما میں بیٹھ کر فلم تو دیکھ سکتا ہے لیکن اکھٹے بیٹھ کر کوئی کتاب نہیں پڑھ سکتا۔کسی کو علم دینا بھی صدقہ جاریہ ہے۔انسان دولت سے ہر چیز حاصل کر سکتا ہے لیکن علم ایک واحد نعمت ہے جو صرف انسان ذاتی شوق سے حاصل کرتا ہے سکندر اعظم سے لے کر بل گیٹس تک ہر کامیاب شخص نے آنے والی نسلوں کے لیے کتاب کا تحفہ بطور ورثہ چھوڑا ہے۔دنیا کا کوئی کامیاب شخص لے لیں اور ُاسے چاہے دنیا کے کسی کونے سے لے لیں آپ دیکھیں گے کہ ُاس کا اور کتاب کا کیسا ساتھ رہا ہے جس کو وجہ سے وہ کامیاب ہوتا چلا گیا ہے۔جوں جوں زمانہ ترقی کرتا جا رہا ہے مطالعے کی جستجو ختم ہوتی چلی جا رہی ہے۔بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں بچوں کو سکولوں میں داخل کروانے سے پہلے مطالعے کی عادت ڈالی جاتی ہے سکولز میں ایک مخصوص کردہ وقت پر بچوں کو لائبریری لے جایا جاتا ہے بچے اپنی مرضی سے کتابیں پڑھتے ہیں یوں ُان میں مطالعے کا شوق بھی پروان چڑھتا ہے۔ یورپی اقوام میں کتابیں پڑھنا ایک لازمی جزو سمجھا جاتا ہے لیکن یہ وصف تو ہمارا تھا جسے ہم نے جانے انجانے میں چھوڑ دیا ہے جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔کسی قوم کو تباہ کرنے کے لیے جنگ کی ضرورت نہیں بلکہ علم سے دوری ہی کافی ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ علم کبھی ہماری ترجیح رہا ہی نہیں ہماری لائبریروں میں پڑی کتابیں بھی افسوس کر رہی ہوں گئی
گنوا دی ہم نے جو اسلاف دے میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا
مفاد پرستی ہمیں کہیں اور کا سوچنے ہی نہیں دیتی ہر شخص دولت کی ہوس میں گھیرا ہوا ہے اور اس حد تک گھیرا ہوا ہے کہ وہ سوائے اس کے یہاں سے ُاسے کتنا منافع حاصل ہو گا وہاں سے کتنا اور کچھ سوچنے کا موقع ہی نہیں دیتی ہم جانوروں سے ممتاز صرف اسی وجہ سے ہیں کہ ہمیں اس دنیا میں آنے کا مقصد پتا ہے۔سکندر اعظم نے کہا تھا” میرا باپ مجھے آسمان سے زمین پر لایا لیکن میرا استاد مجھے آسمان پر لے گیا ”وطن عزیز کی بات کریں تو یہاں جو شخص مطالعے کا شوقین نظر آئے تو ُاسے کتابی کیڑا،مجنوں اور پاگل کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔کتابوں سے دوری کی ایک وجہ ناخواندگی بھی ہے لوگ کتابوں کی اہمیت کو نہیں جانتے اور نہ ہی کبھی ان کا مقصد سمجھ پائے ہیں پاکستان میں لائبریریاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔میرے خیال سے ہم کتابوں کے بغیر کسی چیز کا مقصد نہیں جان سکتے۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کتابیں پڑھنے کے کیے لائبریری جانا پڑتا ہے اور یوں وہ کتابیں نہیں پڑھ سکتے لیکن میری رائے ہے کہ کتاب تو کہیں بیٹھ کر پڑھی جا سکتی ہے بس سٹاپ سے لے کر پارکس تک ہم کتاب پڑھ سکتے ہیں۔ قصہ المختصر اس قوم کو ضرورت ہے کہ کتابوں سے دوستی مضبوط کرے علم سے محبت ہی ہمیں جہالت کی پستیوں سے نکال سکتی ہے۔
435