ڈالر کی اونچی اڑان 178

ڈالر کی اونچی اڑان

ملکی تاریخ میں پہلی بار ڈالر کی قیمت دو سو ہونے کے بعد بلند ترین سطح پر پہنچ گئی اور ڈالر کی اونچی اڑان کا تسلسل برقرار ہے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بھی بائیس ماہ کی کم ترین سطح پر آگئے ہیں زرمبادلہ کے ذخائر میں تسلسل سے کمی درآمدی بل میں ریکارڈ اضافہ جیسے عوامل کے باعث ڈالر کی طلب اور رسید کا توازن بگڑ گیا ہے جو ڈالر کی قدر میں اضافے کا باعث بنادنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں ڈالر کی قیمت اوپن مارکیٹ مہیا کرتی ہے اور یہ اس بنیاد پر ہوتا ہے کہ کسی بھی ملک کی معیشت میں کتنے ڈالر دستیاب ہیں اور ملک میں اس کی مانگ کتنی ہے ڈالر کی قدر اس وقت بڑھ جاتی ہے جب کسی معیشت میں اس کی مانگ بڑھتی ہے مگر دوسری جانب رسد گھٹ جاتی ہے پاکستان میں یہ معاملہ تھوڑا مختلف ہے یہاں ڈالر کی قدر کا تعین دو طرح ہوتا ہے اول انٹر بنک مارکیٹ جہاں بنک آپس میں ڈالر بڑے پیمانے پر خرید وفروخت کرتے ہیں اور یہاں کی قیمت کو ڈالر کا انٹر بنک ریٹ کہا جاتا ہے جبکہ دوسری اوپن مارکیٹ ہے جہاں سے عام لوگوں کی ڈالر کی ضرورت پوری ہوتی ہیں حکومت اور سٹیٹ بنک ڈالر کی قدر متعین کرنے کے معاملے میں اوپن مارکیٹ میں دخل اندازی کرتے ہیں یہ فیصلہ کرنے کیلئے کہ اس کی قیمت کو ایک وقت میں کتنا ہونا چاہیے اوپن مارکیٹ میں جب ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے اور رسد کم تو سٹیٹ بنک اپنے ڈالر کے ذخائر سے ڈالر مارکیٹ میں بیچتا ہے تاکہ رسد کو بہتر کیا جا سکے دوسرا طریقہ یہ ہے کہ سٹیٹ بنک چپ چاپ تمام کمرشل بنکوں کو زبانی ہدایات جاری کر دیتا ہے کہ ایک مخصوص قیمت سے زائد پر وہ ڈالر کی خریداری نہ کریں اس سے فائدہ یہ ہوتاہے کہ ایک مخصوص قیمت پر پہنچ کر بنک خریداری بند کر دیتے ہیں اور اس سے قیمت بڑھنے سے رک جاتی ہے مگر اس کا نقصان بھی ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس ڈالر کے ذخائر کم ہو جاتے ہیں اوپن مارکیٹ میں اس سلسلے میں کافی افراتفری پائی جاتی ہے اور لوگ ڈالر خرید کر گھروں میں رکھ رہے ہیں یہ سوچتے ہوئے کہ آگے چل کر روپے کی قدر میں مزید کمی ہوگی ترقی پذیر ممالک جیسا کہ پاکستان جہاں مارکیٹ چھوٹی ہے اور روزانہ ڈالر کی ٹریڈ صرف پانچ سے سات ملین ڈالر ہے وہاں حکومتوں کو اوپن مارکیٹ کے معاملات میں دخل اندازی کرنا پڑتی ہے چھوٹے حجم کی مارکیٹ میں اگر ڈالرکی قدر کا تعین اوپن مارکیٹ پر چھوڑ دیا جائے تو لوگ ڈالر کے ساتھ کھلواڑ شروع کر دیتے ہیں اور مصنوعی صورتحال تخلیق کرکے ڈالر کی قدر پر اثر انداز ہونا شروع کر دیتے ہیں اور اس موقع پرسٹیٹ بنک کو مداخلت کرنی پڑتی ہے تاکہ کسی بھی غیر معمولی صورتحال کا بندوبست کیا جائے اور ایکسچینج ریٹ پر کسی قسم کا دباؤ نہ پڑے صورتحال کے اس نہج پر پہنچنے کی سب سے بڑی وجہ آئی ایم ایف ہے حکومت یہ فیصلہ کر چکی ہے آئی ایم ایف کے پاس قرضے کے حصول کیلئے جانا ہے کہ پاکستان کا ایکسچینج ریٹ کافی خراب اور نازک ہے اور قرضے کے حصول سے قبل اس کو درست کیا جانا ضروری ہے آئی ایم ایف کی طرف سے یقینا کوئی نہ کوئی ٹارگٹ تو دیا گیا ہو گا کہ روپے کی قدر کیا ہونی چاہیے جس تیزی سے سٹیٹ بنک نے ریٹ ایڈجسٹ کیا ہے اس سے لگ رہا ہے کہ گاڑی چھوٹ رہی ہے اور آپ نے جلد از جلد اس میں سوار ہونا ہے اور ایسا کرتے ہوئے آپ افراتفری کا شکار ہو جاتے ہیں جبکہ عام حالات میں ایسا نہیں ہوتا جب حکومت ہر چند روز بعد ڈالر کی قیمت میں اضافہ کر کے ایڈجسٹ کر رہی ہے اور لوگ دیکھ رہے ہیں تو یقینا لوگوں میں ایک امید اور توقع پیدا ہوتی ہے کہ اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے
مسلسل مہنگائی بڑھنے اور روپے کی قدرکم ہونا لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ طویل ہوتا یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہ سکتا ہے اور محفوظ طریقہ کار ڈالر کو بچا رکھنے میں ہی ہے جب بھی ملک میں مہنگائی بڑھتی ہے تو لوگوں کا خیال ہے کہ بنکوں میں ان کے پیسے کم ہوتے جارہے ہیں اور ڈالر ہونے کی صورت میں وہ روپے کی قدر میں کمی سے محفوظ رہ پائیں گے برآمدات کے شعبے سے وابستہ افراد جب دیکھتے ہیں کہ آج ڈالر کا یہ ریٹ ہے اوراگر آج میں اپنے ایکسپورٹ پروسیڈز کو مارکیٹ میں نہ لے لاؤں تو مجھے چند پیسے زیادہ مل جائیں گے اور اس سوچ کے تحت وہ اپنی ایکسپورٹ پروسیڈز کو روک لیتے ہیں جبکہ درآمدات کے شعبے سے وابستہ افراد بھی انہی خطوط پر سوچتے ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں جس سے طلب اور رسد میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے اور مارکیٹ میں افراتفری کی سی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے روپے کی قدر بے تحاشہ کم کرنے کا سب سے بڑا نقصان قرضوں اور سود کی شرح میں اضافے کی صورت میں نکلتا ہے اب ملک کا زیادہ پیسہ سود کی ادائیگی میں جائے گا اور ترقی‘صحت‘ تعلیم اور عوام کو ریلیف دینے کیلئے کچھ نہیں بچے گا اور آپ کو مزید قرضہ لینا پڑے گا اس صورتحال کو قرض کی دلدل میں پھنسنا کہتے ہیں اس صورتحال کو دیکھ کر سرمایہ دار کا اعتماد بھی اٹھ جاتا ہے اور وہ مزید سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں ہو جاتے ہیں بلکہ جو سرمایہ لگایا ہوتا ہے اسے بھی وہ نکال لینا چاہتے ہیں ڈالر کی بڑھتی قیمت پر قابو پانے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کرنے کیلئے حکومت نے اشیائے تعیش اور غیر ضروری اشیاء کی درآمدپر پابندی لگا دی ہے اس سے معلوم ہو سکے گا کہ اس سے ملکی خزانے میں ڈالر کے ذخائر میں کتنا فرق پڑے گا حکومت صرف زبانی جمع خرچ کیلئے اقدامات نہیں لینا چاہتی بلکہ ایسے اقدامات اٹھانا چاہتی ہے جس سے ملکی معیشت کو حقیقی معنوں میں سنبھالا دیا جا سکے توقع کی جا رہی ہے کہ غیر ضروری اشیاء کی درآمدپر پابندی سے روپے کی قدر میں مزید کمی نہیں ہو گی خیال رہے کہ پاکستان میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی مسلسل گرتی قدراس وقت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی جب اوپن مارکیٹ میں ڈالر دو سو روپے کی سطح عبور کرگیا گیارہ اپریل کو موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے سے اب تک روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے اور اسکی قمیت انٹر بنک میں 183 روپے سے بڑھ کر دوسو ایک روپے تک ہوچکی ہے اس کی ایک بڑی وجہ حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف معاہدے کی بحالی کے لیے پٹرول پر سبسڈی ختم نہ کرنا ہے موجودہ حکومت اس اقدام کے منفی سیاسی اثراب کے باعث پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے سے گریز کررہی ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں