ملکی تاریخ میں پہلی بار ڈالر کی قیمت دو سو ہونے کے بعد بلند ترین سطح پر پہنچ گئی اور ڈالر کی اونچی اڑان کا تسلسل برقرار ہے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بھی بائیس ماہ کی کم ترین سطح پر آگئے ہیں زرمبادلہ کے ذخائر میں تسلسل سے کمی درآمدی بل میں ریکارڈ اضافہ جیسے عوامل کے باعث ڈالر کی طلب اور رسید کا توازن بگڑ گیا ہے جو ڈالر کی قدر میں اضافے کا باعث بنادنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں ڈالر کی قیمت اوپن مارکیٹ مہیا کرتی ہے اور یہ اس بنیاد پر ہوتا ہے کہ کسی بھی ملک کی معیشت میں کتنے ڈالر دستیاب ہیں اور ملک میں اس کی مانگ کتنی ہے ڈالر کی قدر اس وقت بڑھ جاتی ہے جب کسی معیشت میں اس کی مانگ بڑھتی ہے مگر دوسری جانب رسد گھٹ جاتی ہے پاکستان میں یہ معاملہ تھوڑا مختلف ہے یہاں ڈالر کی قدر کا تعین دو طرح ہوتا ہے اول انٹر بنک مارکیٹ جہاں بنک آپس میں ڈالر بڑے پیمانے پر خرید وفروخت کرتے ہیں اور یہاں کی قیمت کو ڈالر کا انٹر بنک ریٹ کہا جاتا ہے جبکہ دوسری اوپن مارکیٹ ہے جہاں سے عام لوگوں کی ڈالر کی ضرورت پوری ہوتی ہیں حکومت اور سٹیٹ بنک ڈالر کی قدر متعین کرنے کے معاملے میں اوپن مارکیٹ میں دخل اندازی کرتے ہیں یہ فیصلہ کرنے کیلئے کہ اس کی قیمت کو ایک وقت میں کتنا ہونا چاہیے اوپن مارکیٹ میں جب ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے اور رسد کم تو سٹیٹ بنک اپنے ڈالر کے ذخائر سے ڈالر مارکیٹ میں بیچتا ہے تاکہ رسد کو بہتر کیا جا سکے دوسرا طریقہ یہ ہے کہ سٹیٹ بنک چپ چاپ تمام کمرشل بنکوں کو زبانی ہدایات جاری کر دیتا ہے کہ ایک مخصوص قیمت سے زائد پر وہ ڈالر کی خریداری نہ کریں اس سے فائدہ یہ ہوتاہے کہ ایک مخصوص قیمت پر پہنچ کر بنک خریداری بند کر دیتے ہیں اور اس سے قیمت بڑھنے سے رک جاتی ہے مگر اس کا نقصان بھی ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس ڈالر کے ذخائر کم ہو جاتے ہیں اوپن مارکیٹ میں اس سلسلے میں کافی افراتفری پائی جاتی ہے اور لوگ ڈالر خرید کر گھروں میں رکھ رہے ہیں یہ سوچتے ہوئے کہ آگے چل کر روپے کی قدر میں مزید کمی ہوگی ترقی پذیر ممالک جیسا کہ پاکستان جہاں مارکیٹ چھوٹی ہے اور روزانہ ڈالر کی ٹریڈ صرف پانچ سے سات ملین ڈالر ہے وہاں حکومتوں کو اوپن مارکیٹ کے معاملات میں دخل اندازی کرنا پڑتی ہے چھوٹے حجم کی مارکیٹ میں اگر ڈالرکی قدر کا تعین اوپن مارکیٹ پر چھوڑ دیا جائے تو لوگ ڈالر کے ساتھ کھلواڑ شروع کر دیتے ہیں اور مصنوعی صورتحال تخلیق کرکے ڈالر کی قدر پر اثر انداز ہونا شروع کر دیتے ہیں اور اس موقع پرسٹیٹ بنک کو مداخلت کرنی پڑتی ہے تاکہ کسی بھی غیر معمولی صورتحال کا بندوبست کیا جائے اور ایکسچینج ریٹ پر کسی قسم کا دباؤ نہ پڑے صورتحال کے اس نہج پر پہنچنے کی سب سے بڑی وجہ آئی ایم ایف ہے حکومت یہ فیصلہ کر چکی ہے آئی ایم ایف کے پاس قرضے کے حصول کیلئے جانا ہے کہ پاکستان کا ایکسچینج ریٹ کافی خراب اور نازک ہے اور قرضے کے حصول سے قبل اس کو درست کیا جانا ضروری ہے آئی ایم ایف کی طرف سے یقینا کوئی نہ کوئی ٹارگٹ تو دیا گیا ہو گا کہ روپے کی قدر کیا ہونی چاہیے جس تیزی سے سٹیٹ بنک نے ریٹ ایڈجسٹ کیا ہے اس سے لگ رہا ہے کہ گاڑی چھوٹ رہی ہے اور آپ نے جلد از جلد اس میں سوار ہونا ہے اور ایسا کرتے ہوئے آپ افراتفری کا شکار ہو جاتے ہیں جبکہ عام حالات میں ایسا نہیں ہوتا جب حکومت ہر چند روز بعد ڈالر کی قیمت میں اضافہ کر کے ایڈجسٹ کر رہی ہے اور لوگ دیکھ رہے ہیں تو یقینا لوگوں میں ایک امید اور توقع پیدا ہوتی ہے کہ اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے
مسلسل مہنگائی بڑھنے اور روپے کی قدرکم ہونا لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ طویل ہوتا یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہ سکتا ہے اور محفوظ طریقہ کار ڈالر کو بچا رکھنے میں ہی ہے جب بھی ملک میں مہنگائی بڑھتی ہے تو لوگوں کا خیال ہے کہ بنکوں میں ان کے پیسے کم ہوتے جارہے ہیں اور ڈالر ہونے کی صورت میں وہ روپے کی قدر میں کمی سے محفوظ رہ پائیں گے برآمدات کے شعبے سے وابستہ افراد جب دیکھتے ہیں کہ آج ڈالر کا یہ ریٹ ہے اوراگر آج میں اپنے ایکسپورٹ پروسیڈز کو مارکیٹ میں نہ لے لاؤں تو مجھے چند پیسے زیادہ مل جائیں گے اور اس سوچ کے تحت وہ اپنی ایکسپورٹ پروسیڈز کو روک لیتے ہیں جبکہ درآمدات کے شعبے سے وابستہ افراد بھی انہی خطوط پر سوچتے ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں جس سے طلب اور رسد میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے اور مارکیٹ میں افراتفری کی سی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے روپے کی قدر بے تحاشہ کم کرنے کا سب سے بڑا نقصان قرضوں اور سود کی شرح میں اضافے کی صورت میں نکلتا ہے اب ملک کا زیادہ پیسہ سود کی ادائیگی میں جائے گا اور ترقی‘صحت‘ تعلیم اور عوام کو ریلیف دینے کیلئے کچھ نہیں بچے گا اور آپ کو مزید قرضہ لینا پڑے گا اس صورتحال کو قرض کی دلدل میں پھنسنا کہتے ہیں اس صورتحال کو دیکھ کر سرمایہ دار کا اعتماد بھی اٹھ جاتا ہے اور وہ مزید سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں ہو جاتے ہیں بلکہ جو سرمایہ لگایا ہوتا ہے اسے بھی وہ نکال لینا چاہتے ہیں ڈالر کی بڑھتی قیمت پر قابو پانے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کرنے کیلئے حکومت نے اشیائے تعیش اور غیر ضروری اشیاء کی درآمدپر پابندی لگا دی ہے اس سے معلوم ہو سکے گا کہ اس سے ملکی خزانے میں ڈالر کے ذخائر میں کتنا فرق پڑے گا حکومت صرف زبانی جمع خرچ کیلئے اقدامات نہیں لینا چاہتی بلکہ ایسے اقدامات اٹھانا چاہتی ہے جس سے ملکی معیشت کو حقیقی معنوں میں سنبھالا دیا جا سکے توقع کی جا رہی ہے کہ غیر ضروری اشیاء کی درآمدپر پابندی سے روپے کی قدر میں مزید کمی نہیں ہو گی خیال رہے کہ پاکستان میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی مسلسل گرتی قدراس وقت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی جب اوپن مارکیٹ میں ڈالر دو سو روپے کی سطح عبور کرگیا گیارہ اپریل کو موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے سے اب تک روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے اور اسکی قمیت انٹر بنک میں 183 روپے سے بڑھ کر دوسو ایک روپے تک ہوچکی ہے اس کی ایک بڑی وجہ حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف معاہدے کی بحالی کے لیے پٹرول پر سبسڈی ختم نہ کرنا ہے موجودہ حکومت اس اقدام کے منفی سیاسی اثراب کے باعث پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے سے گریز کررہی ہے
