تحریروترتیب::ظفرمغل/عثمان ندیم شیخ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ریاست جموں وکشمیرکی نابغہ روزگارشخصیت محترم عبدالمجید ملک چیف جسٹس(ر) ہائیکورٹ آزادجموں وکشمیردارفانی سے کوچ کرگئے،دل اس وقت خون کے آنسورو رہاہے تاہم قلم قبیلہ سے تعلق اورمرحوم سے دیرینہ رشتہ مجبورکررہاہے کہ نسل نوکوچیف جسٹس (ر) عبدالمجید ملک کے نظریات،افکار، خدمات۔تحریک آزادی کشمیرکیلئے ان کی جدوجہداورریاستی عوام کے حقوق کے حصول کیلئے انتھک محنت اورسنجیدہ اقدامات بارے متعارف کرایاجائے۔اپنی ذات میں ایک انجمن،مدبر، دانشور، سیاستدان اورعوامی حقوق وسماجی بھلائی کے بارے میں ان کی تاریخ سازکاوشوں کے بارے میں لکھتے ہوئے دل میں یہ خوف بھی ہے کہ شایدمجھ ساناچیزان کی خدمات کولفظوں میں بیان بھی کرپائے گایانہیں تاہم قارئین سے پیشگی معذرت کیساتھ ان کی ذات کااحاطہ کرنے کی کوشش کرنے کی جسارت کررہاہوں۔عبدالمجید ملک ضلع میرپورکی تحصیل ڈڈیال موہڑہ ملکاں میں 16ستمبر1932کوپیداہوئے‘والدین نے روحانی برکت کے طورپر پیرو مرشدین چوراشریف کی طرف سے تجویزکردہ نام سائیں امام دین رکھااوراسی نام سے ڈڈیال مڈل سکول کی پہلی جماعت میں داخل ہوئے اوریہی نام نویں تک چلتارہاانہیں بلاجھجھک بات کرناورثے میں ملا اوریہی وصف ان کے بیٹوں شوکت مجیدملک سیکرٹری اطلاعات (ر)آزادکشمیر‘ شاہد ملک اورارشد مجیدملک ایڈووکیٹ میں بھی ودیعت ہے ہائی سکول ڈڈیال میں دسویں کلاس میں داخلے کے وقت محمدجان رتیال ہیڈماسٹرنے فارم پُرکرتے ہوئے سائیں امام دین کوبلاکرکہاکہ”تمہاری شخصیت کے مطابق یہ نام جچتانہیں ہے“ جس پرانہوں نے بتایاکہ میراایک نام عبدالمجید ہے جس پرانہوں نے عبدالمجید درج کرکے داخلہ بھیج دیااوربعدازاں مئی1947میں گورنمنٹ انٹرکالج میرپورمیں اسی نئے نام سے داخل ہوئے اورپھر گارڈن کالج راولپنڈی میں فسٹ ائیرمیں داخلے کے بعد پروفیسرعزیزاحمدکی تحریک پر4دیگرطلبہ میں انفرادیت پیداکرنے کیلئے اپنے نام کیساتھ شناخت کیلئے ملک کااضافہ کردیااورتب سے اب تک وہ اسی نام سے جانے وپہچانے جاتے ہیں۔کالج کے زمانہ سے ہی عبدالمجیدملک کولکھنے پڑھنے کاشوق تھا،غصیلی اورحساس طبیعت کے مالک تھے اورڈیلی ڈان،پاکستان ٹائمزاورنوائے وقت کے قاری تھے۔پاکستان ٹائمزپرپابندی کے بعد روزنامہ جنگ اوردی نیوز کے عمربھرقاری رہے اپنی طبیعت کے باعث کسی کی بھی ڈکٹیشن برداشت نہ کرتے تھے اورہمیشہ اپنے مستقبل سے متعلق فیصلے بغیرکسی مشاورت کے ازخودکرناپسندکرتے تھے نہایت خوش لباس اورخوش گفتارہونے کے باعث بھی انہیں اپنے ہم عصروں میں منفردمقام حاصل تھا اوراکثروبیشترمحفلوں میں انہیں خوش لباسی کے حوالے سے یادکیاجاتاتھا۔سابق صدرریاست اورپہلے وزیردفاع کیپٹن جنرل سیدعلی احمدشاہ کے بیٹے سیدشرافت حسین شاہ گارڈن کالج میں ان کے کلاس فیلو تھے 1957ء میں مرسڈیزکارپہلی دفعہ صدرآزادحکومت کوملی تھی عبدالمجید ملک ان کے گھرگئے تو چمچماتی گاڑی دیکھ کرڈرائیورسے کہاکہ انہیں کچہری تک کاچکرلگوائے اس نے کانوں کوہاتھ لگاکرتوبہ کرتے ہوئے انکارکیا،شرافت حسین شاہ نے بھی منع کیالیکن اپنی ڈکٹیشن نہ لینے کی عادت سے احمدشیخ کی تقرری منسوخ کروادی،وزیرامورکشمیرجنرل فیض علی چشتی نے متعددبارعبدالمجیدملک کوجج ہائیکورٹ تعینات کرنے کی بات کی لیکن چیف ایگزیکٹو بریگیڈئیر حیات خان نے چیف سیکرٹری(وقت) ظہیرحسن کی موجودگی میں مخالفت کی 9مئی 1978کوجنرل فیض علی چشتی میرپوردورے پرآئے تو انہوں نے عبدالمجیدملک کوبلواکرجج ہائیکورٹ تعیناتی کی پیشکش کی لیکن انہوں نے معذرت کرلی بالآخر17مئی1978ء کوایک مقدمہ قتل کی سماعت کے دوران عدالت میں موجودتھے کہ ٹیلیفون پراطلاع ملنے پرجج نے عبدالمجیدملک سے کہاکہ آپ کاجج ہائیکورٹ آرڈرہوچکاہے اورآپ یہاں بحث میں مصروف ہیں۔جس پروہ بحث سے فارغ ہوکرگھرچلے گئے اورماموں انسپکٹرحاجی عبدالعزیزملک کے سمجھانے بجھانے پر18مئی 1978کوبطورجج ہائیکورٹ میرپورسے پہلے جج بننے کے اعزازکے طورپراپنے عہدے کاحلف اٹھالیااورپھر10اگست1983کو بطورچیف جسٹس آزادجموں وکشمیرہائیکورٹ صدرریاست(وقت)میجرجنرل عبدالرحمن سے اپنے عہدے کاحلف لیا۔عبدالمجیدملک نے بحیثیت چیف جسٹس ہائیکورٹ میں بینچ وبار کیلئے انقلابی اقدامات اٹھاتے ہوئے ہائیکورٹ کی عمارت اورمیرپورمیں کسٹوڈین بلڈنگ،وکلاء چیمبرز کی تعمیرکیلئے فنڈزکی فراہمی کویقینی بناکرتعمیرات کاعمل مکمل کروایااوربطورچیف جسٹس پروٹوکول کاخاتمہ بھی کیا،1988میں آزادکشمیریونیورسٹی کے وائس چانسلرمسٹرسلہریاکی حج پرروانگی کے دوران بطوروائس چانسلراضافی چارج بھی سنبھال کریونیورسٹی کی بہتری کیلئے اقدامات اٹھائے، بحیثیت جج عبدالمجید ملک نے ہائیکورٹ اورسپریم کورٹ میں اپنی تعیناتی کے دوران 16سال میں تاریخ سازفیصلے رقم کئے،جن کی مثالیں وحوالہ جات پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ میں بھی دیے جاتے ہیں،یہاں تک کہ وزیراعظم پاکستان محترمہ بینظیربھٹو نے بھی عشائیہ تقریب میں عبدالمجیدملک کاخودتعارف کرواتے ہوئے آزادکشمیرمیں ایڈہاک تقرریوں کیلئے معروف عتیق کمیشن کیخلاف فیصلہ کوتاریخ سازقراردیااورآزادکشمیرکے پارٹی عہدیداران سے کہاکہ آپ تو سردارعبدالقیوم خان سے مل گئے تھے عبدالمجید ملک نے تاریخ سازفیصلہ دیکرمجھے یہ کہنے پرمجبورکیاہے کہ انہیں آزادکشمیرمیں نہیں پاکستان میں چیف جسٹس ہوناچاہیے۔یہاں یہ امربھی قابل ذکرہے کہ عبدالمجیدملک نے 460سے زائدعتیق کمیشن کی خلاف میرٹ وقانون تقرریوں کوعوامی مفاد میں کالعدم قراردیاتو ان کی اپنی صاحبزادی عذرامجیدبھی اس فیصلے کی زدمیں آکرلیکچررگریڈ18کے عہدے سے متاثرہوئیں مگرانہوں نے اس کی بھی پرواہ نہ کی،حالانکہ اس وقت کے ججزنے اپنے خاندان کے لوگوں کے متاثرہونے کیوجہ سے یہ کیس سننے سے معذرت کرلی تھی۔عبدالمجیدملک کے تاریخ سازفیصلوں میں گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے متعلق 174صفحات پرمشتمل دلیرانہ فیصلہ (8مارچ 1993)۔ریاستی عوام کے حقوق اورحیثیت کے بارے میں ایوب عزیزوغیرہ مقدمہ میں فیصلہ صادرکرتے ہوئے ریاستی حکومت کوحکم دیاکہ پٹیشنرکوبیدخل کرکے سرینگرنہ بھیجاجائے بلکہ انہیں ریاست کے کسی بھی شہرمیں رہنے کاآئینی وقانونی حق حاصل ہے(13ستمبر1994)ڈائریکٹراطلاعات احمدشمیم کونوکری سے ہٹائے جانے کے حکومتی حکم کے مقدمہ میں بھی عبدالمجیدملک نے اسے بدنیتی پرمبنی قراردیتے ہوئے معطل کردیا،اسی طرح 4جماعتی اتحا د کی طرف سے صدرریاست(وقت) بریگیڈئیرحیات خان کیخلاف تحریک میں سردارابراہیم،چودھری نورحسین، عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ،چودھری خادم حسین،ریاض انقلابی ایڈووکیٹ، صابرانصاری ایڈووکیٹ،محمدعظیم دت ایڈووکیٹ اورچاچاعلی محمد(سابق وزیرقانون) کی پلندری جیل سے رہائی کاتاریخ سازحکم بھی صادرکیااورپاکستان میں مارشل لاء وآزادکشمیرمیں ایمرجنسی کے نفاذکے دوران سردارعبدالقیوم اورسردارابراہیم کی اپیلوں کوسماعت کیلئے منظورکرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کاحکم بھی صادرکیا۔اسی طرح چودھری نورحسین کے کوآپریٹوبینک سکینڈل میں ان کی رہائی کے فیصلے کے علاوہ وزیراعظم (وقت) سردارسکندرحیات کی مہاجرین کے حلقہ ایل اے 34جموں 6سے نااہلی،آزادکشمیرکی سطح پرپہلی مرتبہ چودھری یٰسین کی اومنی بس ضمانت بھی شامل ہے۔عبدالمجیدملک کے تاریخ سازفیصلوں سے آزادکشمیرکی عدلیہ کوعالمی شناخت ملی،یہی وجہ ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نامی عالمی تنظیم نے جسٹس عبدالمجیدملک کی سربراہی میں آزادجموں وکشمیرہائیکورٹ کے جاندارفیصلوں میں انسانی حقوق کاتحفظ، اورشہری آزادیوں کی بحالیوں کیلئے کئے گئے فیصلوں کی فہرست میں اول پوزیشن دیکرسرفہرست رکھ کرسراہاگیا۔جسٹس عبدالمجیدملک کے دلیرانہ اورآئین وقانون کے مطابق حکمرانوں کیخلاف فیصلوں کی پاداش میں کبھی انہیں ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ اورپھرسپریم کورٹ سے واپس ہائیکورٹ بھیجنے کے انتقامی فیصلے بھی کئے جاتے رہے اس کے باوجود وہ آزادکشمیرکی عدلیہ کی تاریخ میں ایک روشن باب کااضافہ کرنے کے بعد بالآخر15ستمبر1994کوعدلیہ سے بحیثیت جج رخصت ہوگئے،سرکاری عہدہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد عبدالمجید ملک نے مادرملت بیگم ثریاخورشیدکی تحریک پر جموں وکشمیرلبریشن لیگ کے بانی صدراورقائداعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری اورسابق صدرریاست کے ایچ خورشیدکی جماعت جموں کشمیرلبریشن لیگ کی صدارت سنبھال لی اوراس حیثیت میں اندرون وبیرون ملک قائداعظم محمدعلی جناحؒ کواپنارول ماڈل بناتے ہوئے ان کی کشمیرپالیسی پرچل کرمظلوم ومحکوم کشمیری عوام کو بھارت کے ظالمانہ پنجہ استبدادسے نجات دلانے کیلئے سیاسی وسفارتی محاذپرآل پارٹیزحریت کانفرنس سمیت دیگرسیاسی قائدین سے قریبی روابط استوارکرتے ہوئے ہرممکن اقدامات اٹھائے اوربین الاقوامی سطح پربرطانیہ، امریکہ،بھارت،مقبوضہ کشمیراوراقوام متحدہ،امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اورسینٹ میں کشمیریوں کے اقوام متحدہ میں طے شدہ حق خودارادیت کے مطابق کشمیریوں کے مؤقف کی بھرپورترجمانی کی،اس دوران انہیں برطانوی ہاؤس آف لارڈز میں لارڈایوبری اورایم پی وچیئرمین پارلیمانی کشمیرکمیٹی راجرگارڈ سیف سے ملکربین الاقوامی سطح پرمسئلہ کشمیرکواجاگرکرنے میں بھی بھرپورکرداراداکیا۔عبدالمجیدملک پیرانہ سالی کے باوجودکشمیریوں کوان کابنیادی پیدائشی حق حق خودارادیت دلوانے کیلئے ہمہ تن مشغول تھے کہ نوے(90) سال کی عمرمیں چندروزKICمیرپورمیں داخل رہنے کے بعدگھرمنتقلی کی دوسرے روز ہی خالق حقیقی سے جاملے،مرحوم کی نمازجنازہ قائداعظم کرکٹ اسٹیڈیم میرپورمیں اداکی گئی،نمازجنازہ میں وزیراعظم آزادکشمیر سردارعبدالقیوم خان نیازی،چیف جسٹس سپریم کورٹ راجہ محمدسعیداکرم، چیف جسٹس ہائیکورٹ جسٹس صداقت حسین راجہ، اعلیٰ عدلیہ کے ججزصاحبان، صدرپیپلزپارٹی آزادکشمیر چودھری محمدیٰسین، سابق وزیراعظم سردارعتیق احمدخان، سابق وزیراعظم چودھری عبدالمجید، سابق اسپیکراسمبلی شاہ غلام قادر، سابق چیف جسٹس محمداعظم خان، وزرائے حکومت، ممبران اسمبلی، سابق وزراء سمیت تمام مکاتب فکرسے تعلق رکھنے والے ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔عبدالمجید ملک نے ہرمکتبہ فکرکے لوگوں کومتاثرکیا،آپ کی وفات سے خطہ کشمیرایک نامورقانون دان، سیاستدان،تحریک آزادی کشمیرکے بے لاگ رہنمااورمعتبرسماجی شخصیت سے محروم ہوگیا۔حکومت آزادکشمیرنے آپ کی وفات پرسرکاری سطح پرمیرپور ڈویژن کے تینوں اضلاع میں تعطیل کااعلان کیا جبکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی ہدایت پرتمام عدالتیں بندرہیں۔آپ کی وفات سے پیداہونیوالاخلاء مدتوں پُرنہ ہوسکے گا، اللہ رب العزت انہیں کروٹ کروٹ راحت نصیب فرمائے۔
ڈھونڈوگے ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم۔
254