آصف شاہ/چوہدری نثارعلی خان کے خلاف حلف نہ اٹھانے کے حوالہ سے ایک بار پھر رٹ دائر کر دی گئی ہے اور یہ بحث زبان زد عام ہے کہ اب فیصلہ ہوگا کہ نہیں کچھ احباب اس پر بات کرتے نظر آتے ہیں کہ اس حوالہ سے کوئی قانون ہے نہ قاعدہ اس لیے پانچ سال ایسے ہی شائید بھگتنا پڑے،دوسری طرف اگرپی پی 10کی سیاسی حالت پر نظر ڈالیں تو اس حلقہ میں اصل مقابلہ چوہدری نثار علی خان اور غلام سرور خان کے درمیان ہے اور دونوں ایک دوسرے کے سخت موقف رکھنے والے سیاسی حریف ہیں گزشتہ الیکشن سے قبل تحریک انصاف دو دھڑوں میں بٹ گئی تھی ایک دھڑا کرنل اجمل صابر راجہ اور دوسرادھڑا غلام سرور خان کا تھااس وقت ن لیگ کے ٹکٹ ہولڈر قمراسلام راجہ کی گرفتاری اور تحریک انصاف کی دھڑے بندی کی وجہ سے پر آذاد حثیت سے الیکشن لڑنے والے چوہدری نثار علی خان نے اکلوتی سیٹ جیتنے کا شرف حاصل کیا تھا،اس وقت پارٹی پالیسی کو سامنے رکھتے ہوئے کرنل اجمل صابر راجہ اور ان کے دھڑے نے غلام سرور خان کو نہ صرف سپورٹ کیا بلکہ ان کی جیت میں بھی کلیدی کردار ادا کیااب ایک بار پھر اس حلقہ میں اسی سیاسی کشمکش کا آغاز ہوا چاہتا ہے اور صورتحال ایک بار پھر گھمبیرتا کی جانب جاتی دکھائی دی،اگر اس حلقہ میں ضمنی الیکشن کا اکھاڑہ سجتا ہے توالیکشن میں کیے گے وعدے اور عہدو پیماں کئی دھڑوں کوجنم دے سکتے ہیں،سیاسی پنڈت یہ بات برملا کہتے نظر آتے ہیں کہ اس حلقہ میں تاحال تحصیل چک بیلی سمیت کوئی بڑا پروجیکٹ شروع نہ کرنے کی بڑی وجہ وفاقی وزیر غلام سرور خان کی ضمنی الیکشنوں میں اپنے دھڑے کو ٹکٹ دلوانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں اور اگر بگل بجتا ہے تو وہ ایک ساتھ چند منصوبوں کا اعلان کر کے چک بیلی کی عوام کو ایک بار پھر سیاسی سحر میں جکڑ سکتے ہیں،ان کی گڈ بک میں اس وقت چوہدری افضل پڑیال شامل ہیں اور ان کو ٹکٹ دلوانے کے لیے وہ کسی حد تک جا سکتے ہیں گزشتہ الیکشن میں بھی انہوں نے آزاد امیدوار ہونے کے باوجود بھی وہ اپنی کمپین کو ٹکٹ ہولڈرکے ساتھ مل کر چلایا اور اچھے خاصے ووٹ بھی حاصل کر لیے وہ اب بھی امیدوار ہیں،دوسری جانب اس حلقہ میں تحریک انصاف کے لیے اولین دستے کا کردار ادا کرنے والے کرنل اجمل صابر راجہ بھی اب میدان میں ان کوگزشتہ الیکشن میں دستبرداری کے بعد سیاسی طور پر مفلوج کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور وعدوں کے باوجود ان کو سائیڈ لائن کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ اب بھی موجود ہیں اورپارٹی کے ہر معاملے میں ریلی ہو یا کوئی اور معاملہ ان کی شمولیت نظر آتی ہے اور وہ اس میں بھرپور انداز میں شرکت کر کے باور کرواتے ہیں کہ میداں خالی نہیں ہے ان کے ساتھ راجہ وحید قاسم بھی اسی تگ دو کے ساتھ موجود ہیں وہ بھی گزشتہ الیکشن میں خود بھی امیدوار تھے لیکن پارٹی کے فیصلے کو سرتسلیم خم کرتے ہوئے انہوں نے دسبرداری کا فیصلہ کیا تھا، چوہدری امیر افضل آف مہوٹہ میرا بھی اسی ہراول دستے میں شامل تھے اور پارٹی کے ہر معامعلے اور کام کے لیے وہ سب سے اگے نظر آئے اور نے پارٹی کے لیے چک بیلی کے مقام پر ایک بڑے پبلک سیکرٹریٹ کو عوام کے لیے بنا لیا ہے لیکن شومئی قسمت ان کے کام پر بھی پانی پھیرکر ان کو بھی سیاسی دوڑ سے باہر کر دیا گیا تھا وہ بھی ضمنی الیکشنوں کی دوڑ شامل ہو سکتے ہیں گوکہ وہ تاحال خاموشی سے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں،گزشتہ الیکشن میں کامیابی کے بعد غلام سرور خان نے این اے 59کو چھوڑنے سے انکار کرتے ہوئے موروثی سیاست کو قبر سے نکال کر ٹکٹ کو مرضی سے دلوایا تھا پورے پاکستان کی طرح اس حلقہ میں عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لیے تاحال عملی اقدامات کو نہیں اٹھایا گیا ہے تحریک انصاف کے منتخب لیڈران اب بھی عوام کو کام ہونگے کام ہونگے کا راگ سنا رہے ہیں،دوسری جانب ن لیگ بھی اس حلقہ میں موجود ہیں اور قمرالسلام راجہ کو نظر انداز کرنا بھی ناممکن ہے لیکن ن لیگ کی اپنی پوزیشن بھی کچھ اتنی اچھی نہیں ہے اسی حلقہ سے سابق چیئرمین نوید بھٹی نے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تھا لیکن پارٹی کے حکم پر چپ سادھ لی تھی وہ اب بھی موجود ہیں اس کے علاوہ سابق چیئرمین یوسی بشندوٹ زبیر کیانی بھی اب یوسی کی سیاست سے آگے دیکھ رہے ہیں اگر ضمنی الیکشن کا طبل بجتا ہے تو وہ بھی ن لیگ کے امیدوار کی حثیت سے سامنے آسکتے ہیں اور جہاں وہ تحریک انصاف کے امیداوران کے لیے مشکل بن سکتے ہیں وہاں وہ قمراسلام راجہ کی موجودہ سیاست کو ناو کو بھی ڈبو سکتے ہیں تحریک انصاف کے اندر پکنے والی کچھڑی اب ابل کر سامنے آسکتی ہے کیونکہ غلام سرور خان دھڑے کی سیاست کے علمبدار ہیں اس حلقہ میں جہاں وہ اپنے دھڑے کے سپرد تمام معاملات کر بیٹھے ہیں وہاں پر ان کو کرنل اجمل چوہدری امیر افضل سمیت تمام کارکان کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا موجودہ حالات میں جہاں ایک طرف تحریک انصاف کے کارکنا ن اب عوام کا سامنا کرنے سے کنی کترانے لگے ہیں اور ان کے سیاسی حریف اب ان کو تبدیلی کے نام سے چھیڑنے لگے ہیں وہاں تحریک انصاف کو اب جلسے جلوسوں اور نعرہ بازی کی سیاست سے نکل کر عوام کی امنگوں اور آسوں کو پورا کرنا ہوگا اور اپنے اندرکے حالات کو بدلنا ہو گا چوہدری نثار علی خان کو الیکشن اوراب سیاست سے نکال باہر کرنے کی خوشی کے شادیانے بجانے والے دبنگ غلام سرور خان کو ذہن میں یہ بات بٹھانی ہوگی کہ اگلی مرتبہ ان کی سیاست کے ساتھ بھی کچھ ا یسا ہوسکتا ہے ان کو چاہیے کہ تمام معاملات اور سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر کرنل اجمل صابرچوہدری امیر افضل وحید قاسم کوالیکشن کی طرح اپنے دستے میں شامل کر لیں اور انہیں اس حلقہ کے ترقیاتی کاموں کی مشاورت میں بھی شامل کریں سیاست میں ہوا بدلنے کی دیر نہیں لگتی اور اس کو آپ جیسا زیرک سیاست دان کیسے بھول سکتا ہے،لیکن اس مرتبہ ہوا بدلی تو جناب کی پارٹی بدلنا بھی کام نہیں آئے گا اب وقت ہاتھ سے گیا نہیں فیصلہ آپ کا ہوگااور پھر،،راوی چین ہی چین لکھتا رہے گا۔
281