چوہدری ریاض بمقابلہ راجہ جاوید اخلاص 216

چوہدری ریاض بمقابلہ راجہ جاوید اخلاص

وطن عزیز میں سیاسی گہما گہمی اپنے عروج پر ہے، اپوزیشن کو دبانے کے لیے حکومت جلسے کا اعلان کررہی ہے تو کہیں اپوزیشن احتجاجی مظاہروں کا پروگرام بنا رہی ہے، شہباز شریف مرکز سیاست بنے ہوئے ہیں اور مریم نواز کہیں پس منظر میں چلی گئی ہیں جتنا مرضی خوش گمانی کا مظاہرہ کریں لیکن یہ حقیقت ہے کہ مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت میں دھڑا بندی موجود ہے‘ جب مرکزی قیادت کی یہ صورت حال ہے تو علاقائی سطح پر بھی اس کے اثرات ضرور پڑے ہیں۔اگر تحصیل گوجرخان کی بات کی جائے تو یہاں گروپ بندی شدید تر ہے، ایک گروپ سابق ایم این اے و پارلیمانی سیکرٹری راجہ جاوید اخلاص جبکہ دوسرا سابق صوبائی وزیر چوہدری محمد ریاض کا ہے، چوہدری محمد ریاض کے ساتھ ان کے چھوٹے بھائی سابق ایم این اے چوہدری خورشید زمان راجہ محمد حمیداور دو سابقہ ایم پی ایز راجہ شوکت عزیز بھٹی اور افتخار احمد وارثی نمایاں ہیں، دوسری جانب راجہ جاوید اخلاص کے ساتھ نمایاں شخصیات میں محمد خان بھٹی قاضی وقار احمد کاظمی علی اصغر اور ہیں، چوہدری خورشید زمان کا دعویٰ ہے کہ تحصیل گوجرخان کی چوبیس سے زیادہ یونین کونسلز کے چیئرمین ان کے ساتھ کھڑے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اصل مسلم لیگ ن والے ہم ہیں، ہم نے کبھی نواز شریف کا ساتھ نہیں چھوڑا، ق لیگ سے آئے ہوئے ہمارے قائد نہیں ہوسکتے، مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے صحیح حقدار ہم ہی ہیں، چوہدری گروپ کے مخالفین کا کہنا ہے کہ چوہدری خورشید زمان کون سا دودھ میں دھلے ہوئے ہیں ق لیگ کے دور میں وزیر اعظم ظفراللہ جمالی کا مشیر کوئی اور نہیں چوہدری خورشید زمان ہی تھے، جو بندہ خود یا اس کا بھائی ق لیگ میں رہا ہے وہ دوسروں پر کیسے تنقید کرسکتا ہے؟راجہ جاوید اخلاص پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ ہمیشہ مفاد پرستوں کا ٹولہ رہتا ہے اورماضی قریب میں قاضی وقار کاظمی تحریک لبیک کے جلوسوں کی قیادت کرتے رہے اور تحریک لبیک کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کے خواہشمند تھے، انہوں نے یونین کونسل کی سطح کا الیکشن لڑا جس میں قاضی وقار کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑھا ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ آج بھی وہ کونسلر کا الیکشن تک جیت نہیں سکتے لیکن راجہ جاوید اخلاص انہیں ایم پی اے کا الیکشن لڑانے کی تیاری کررہے ہیں، راجہ جاوید اخلاص انہیں محض اس لیے پسند کرتے ہیں کہ قاضی وقار کے پاس بہت دولت ہے اور وہ راجہ جاوید اخلاص کی بھی الیکشن مہم کا خرچ اٹھائیں گے،اسی طرح جماعت اسلامی کے قاضی شوکت محمود کے بیٹے ہوں یا فرانس والے راجہ علی اصغر، راجہ جاوید اخلاص کے پاس بہت سے اے ٹی ایمز ہیں جو انتخابات میں ان کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں، راجہ جاوید اخلاص ووٹ نہیں پیسہ دیکھتے ہیں۔راجہ شوکت عزیز بھٹی پر بڑے الزامات لگے اور ان کے بارے میں پیشگوئی کی جاتی رہی کہ وہ شائد پیپلز پارٹی میں شامل ہوجائیں گے لیکن انہوں نے راجہ جاوید اخلاص اور چوہدری ریاض کے ساتھ اختلافات کے باجود مسلم لیگ ن کو نہیں چھوڑا، انہوں نے آزاد الیکشن لڑ کر ثابت کردیا کہ وہ عوام میں برابر مقبول ہیں، راجہ شوکت عزیز بھٹی کا ووٹ بینک آج بھی قائم ہے، حلقہ پی پی 9 کے کم از کم نو سے بارہ یونین کونسل کے چئیرمین علی الاعلان یا اندرون خانہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں، عوام میں بھی راجہ شوکت عزیز بھٹی کو پسند کیا جاتا ہے اور ان کا مضبوط دھڑا ہے، اسی طرح افتخار احمد وارثی درویش صفت انسان ہیں شرقی گوجرخان میں ان کا ایک مقام ہے، عوام انہیں ایک دیانتدار لیڈر کے طور پر جانتے اور پہچانتے ہیں، پچھلے انتخابات میں ان کے ساتھ جو رویہ راجہ جاوید اخلاص اور ان کے ساتھیوں نے اختیار کیا اسے پسند نہیں کیا گیااور ردّ عمل کے طور پر مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو دھتکار دیا۔یاد رہے کہ راجہ جاوید اخلاص کی آبائی یونین کونسل موہڑہ نوری کے چیرمین اور راجہ جاوید اخلاص کے دیرینہ ساتھی راجہ عرفان عزیز جاوید اخلاص اور ن لیگ کو خیر آباد کہہ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں،چیرمین یوسی جاتلی ذیشان اکبر راجہ اور بے شمار ایسے ورکر جو راجہ جاوید اخلاص کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر دوسری سیاسی پارٹیوں کا حصہ بن چکے ہیں راجہ جاوید اخلاص اگر ایٹیمز کے پیچھے بھاگنے کے بجائے مسلم لیگ ن کے ورکرز کو اہمیت دیں اور اپنے طور خودساختہ امیدوار سامنے نہ لائیں جس سے پارٹی میں دھڑے بندی کا خدشہ پیدا ہو تو شاید راجہ جاوید اخلاص آئندہ انتخابات میں حلقے میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کر سکیں۔ اب عقلمندی اور حکمت کا تقاضا ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت کو سوچنا ہوگا کہ ناراض سابق لیگی ممبران اسمبلی کو ساتھ لے کر چلنا ہے، اس کے لیے مقامی و مرکزی قیادت کو مل بیٹھ کر سوچنا ہوگا، اس کے لیے بلدیاتی انتخابات میں اور کچھ عام انتخابات میں امیدوار ڈیکلئیر کیے جاسکتے ہیں، بلدیاتی انتخابات میں تحصیل مئیر کچھ ڈپٹی مئیر اسی طرح کوئی ایک آدھ ضلع کونسل میں ایڈجسٹ کرکے تمام ناراض دھڑوں کو ساتھ ملایا جاسکتا ہے، اگر قیادت نے حکمت کا مظاہ رہ نہ کیا تو یاد رکھیں لوگ پی ٹی آئی حکومت سے نالاں ضرور ہیں لیکن محض ن لیگ کا ٹکٹ ہونا ہی ضروری نہیں بلکہ امیدوار کا قابل ہونا بھی ضروری ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں