ضیاء الرحمن ضیاء/اپنے آپ کو غیر فطری طریقے سے جان بوجھ کر ہلاک کر دینے کا عمل خودکشی کہلاتا ہے۔ اس فعل کا ارتکاب جذبات سے مغلوب ہو کر کیا جاتا ہے، کچھ لوگ بیماری سے تنگ آکر خودکشی کر لیتے ہیں اور کچھ آمدن میں کمی اور ضروریات پوری نہ ہونے کی وجہ سے خودکشی کرتے ہیں، کچھ لوگ لڑائی جھگڑے اور غیرت کی خاطر بھی خودکشی کرتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خودکشی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ چند ممالک میں اسے بہادری سمجھا جاتا ہے اور ذرا ذرا سی بات پر خودکشی کی جاتی ہے۔ کچھ ترقی یافتہ ممالک میں فیشن کے طور پر خودکشی کی جاتی ہے، آمدن میں کمی، ہتک عزت اور کاروبار میں خسارہ جیسی چھوٹی چھوٹی وجوہات کی بنا پر لوگ خودکشی کر لیتے ہیں۔ اسلام سمیت بہت سے الہامی مذاہب میں خودکشی کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بھی خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ لوگ معمولی باتوں پر خودکشیاں کر رہے ہیں، کوئی بے روزگاری سے تنگ آ کر خودکشی کرتا ہے تو کوئی گھریلو لڑائی جھگڑوں سے دلبرداشتہ ہو کر موت کو گلے لگا لیتاہے، کوئی کاروبار میں خسارے کو خودکشی کی وجہ بنا لیتا ہے اور کوئی محبت میں ناکامی پر موت کو دعوت دے دیتا ہے۔خودکشی کرنا کوئی بہادری نہیں ہے یہ انتہائی بزدلانہ فعل ہے۔ کیونکہ جس میں حالات کا مقابلہ کرنے کی جرأت نہ ہو وہ کیسا بہادر ہے؟ تھوڑے سے حالات خراب ہو جانے پر خودکشی کے چور دروازے سے دنیا سے نکلنے کی کوشش کرنا انتہائی بزدلی ہے۔ بہادری تو مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے اور حالات کا جوانمردی سے مقابلہ کرنے میں ہے۔ جب بھی مشکل حالات پیدا ہو جائیں، چاہے وہ برداشت سے باہر ہی کیوں نہ معلوم ہوں ان کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جانا اور اللہ رب العزت پر بھروسہ رکھنا کہ وہی مشکل کشا ہے وہی مشکلات سے انسان کو نکالتا ہے، اس عقیدے اور توکل کے ساتھ مشکلات سے نکلنے کی کوشش کرنا بہادری ہے۔ پھر جب کوئی شخص اللہ پر بھروسہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کے لیے راستے نکال دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کی ذات پر بھروسہ کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں،سورۃ آل عمران میں ہے، ترجمہ:”بے شک اللہ توکل (بھروسہ) کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔“ سورۃ آل عمران میں ہی ایک اور جگہ توکل کی تاکید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، ترجمہ:”اور توکل کرنے والوں کو اللہ پر ہی توکل کرنا چاہیے“۔ سورۃ الطلاق میں رب ذوالجلال فرماتے ہیں، ترجمہ: ”جو اللہ پر بھروسہ کرے وہ اس کے لیے کافی ہے“۔ یعنی جو شخص اس کی ذات عالی پر اعتماد اور بھروسہ کر لیتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے تمام مشکلات کے حل کے لیے سامان مہیا کر دیتے ہیں اور بندے میں حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے جس سے وہ مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے انہیں شکست دے دیتا ہے۔خودکشی کو اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے اور اس کا مرتکب اللہ تعالیٰ کا نافرمان اور جہنمی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا جسم اور اس کی زندگی کسبی نہیں ہے یعنی ان کے حصول میں انسان کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ یہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے جو تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے اور باقی تمام نعمتوں کے لیے اساس کا درجہ رکھتی ہے۔ اس لیے زندگی کی حفاظت کرنا نہایت ضروری ہے۔ جس طرح کسی دوسرے شخص کو قتل کرنا حرام ہے اسی طرح اپنی جان کو ختم کرنا اور اپنے آپ کو قتل کرنا بھی حرام ہے۔ اس لیے کہ وہ جان اس کی اپنی ملکیت نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے۔ خود کشی کسی دوسرے کو قتل کرنے سے زیادہ بڑا گناہ اور اخروی لحاظ سے زیادہ خطرناک فعل ہے اس لیے کہ کسی دوسرے کو خدانخواستہ قتل کرنے کے بعد توبہ کی جاسکتی ہے اور دیت وغیرہ کی صورت میں اس کی تلافی ممکن ہے لیکن جو شخص خود کو ہی مار ڈالے اب اس کے لیے توبہ و تلافی کا دروازہ بند ہو جاتا ہے اور وہ ہمیشہ کے لیے ایسے گناہ کو اپنے سر لے لیتا ہے جس سے نکلنا اس کے لیے ممکن نہیں رہتا اور وہ ہمیشہ اس کی سزا بھگتتارہتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”جس نے لوہے کے ہتھیار سے خود کشی کی تو جہنم کی آگ میں وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہو گا اور وہ اس سے اپنے پیٹ کو زخمی کرتا رہے گا، اور جس نے زہر پی کر خود کشی کی تو وہ بھی جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ اس زہر کو گھونٹ گھونٹ کر پیتا رہے گا اور جس نے پہاڑ (یا کسی اونچی جگہ) سے گر کر خودکشی کی تو وہ بھی جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ پہاڑ سے یوں ہی گرتا رہے گا“(صحیح مسلم)۔ متعدد احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ خودکشی کرنے والے پر جنت حرام ہے حتیٰ کہ کوئی شخص دوران جہاد زخموں سے چور ہو جائے اور وہ تکلیف برداشت نہ کر پا رہا ہوتو اس تکلیف سے بچنے کے لیے بھی اگر وہ خودکشی کرے گا تو احادیث کی روشنی میں ایسی حالت میں خودکشی کرنے والا بھی جہنمی ہے۔ لہٰذا انسان کو دنیا میں پیش آنے والے مصائب و مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہیے اور موت کی جلدی نہیں کرنی چاہیے۔ یقین جانیں دنیا کی تکالیف بہت کم اور عارضی ہیں لیکن آخرت کی تکالیف (اللہ ہم سب کو پناہ عطا فرمائے) بہت زیادہ اور دائمی ہیں، دنیا کی مصیبتیں آخرت کی مصیبتوں کے مقابلے میں کچھ نہیں ہیں۔ دنیا کی تکالیف سہتے سہتے انسان گھبرا جاتا ہے تو وہ یہ سوچتا ہے کہ موت کو گلے لگا کر ان تکالیف سے چھٹکارا مل جائے گا لیکن اس کے پیش نظر یہ رہنا چاہیے کہ مرنے کے بعد اس کے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟ اسے موت کے بعد کی تکالیف یاد رکھنی چاہئیں۔ س لیے دنیا کی چھوٹی موٹی تکالیف کا مقابلہ کرنا چاہیے اور اتنی جلدی دلبرداشتہ ہو کر اپنی جان لینے پر ہر گز آمادہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بات اللہ تعالیٰ کے سخت غصہ کو دعوت دینے کے مترادف ہے اور یہ ایسا گناہ ہے جس کی توبہ کا موقع ملنا ممکن ہی نہیں ہے لہٰذا انسان ہمیشہ کے لیے یہ جرم عظیم اپنے سر لے کر دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے اور دنیا کی آنکھ بند ہوتے ہی عذاب الٰہی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا دنیا کی پریشانیوں پر اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور اسی سے استقامت اور مدد مانگنی چاہیے کیونکہ وہی حقیقی مشکل کشا ہے۔
214