
صوبائی حلقہ پی پی 7ان دنوں خاص دلچسپی کا مرکز بنا ہوا ہے ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین اس حلقہ کے دورے کر چکے ہیں جتنا جوش و خروش اس حلقہ میں دیکھنے کو مل رہا ہے شاید ہی کسی دیگر حلقے میں ایسا ہوتا دکھائی دے پی پی 7پنجاب کے دیگر ایسے صوبائی حلقے جن میں ضمنی انتخابات ہونے جا رہے ہیں ان میں ایک اہم مقام رکھتا ہے کیوں کہ یہاں پر پی ٹی آئی اس وجہ سے زیادہ محنت کررہی ہے کہ پچھلے 3سالوں میں ان کی جماعت کا اہم حصہ راجہ صغیر احمد پی ٹی آئی کو خیر باد کہہ کر ن لیگ میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے اس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں پی ٹی آئی کو یہ بات کسی بھی صورت گوارہ نہیں ہے کہ راجہ صغیر جیتیں جبکہ ن لیگ اس سیٹ کو اس لیئے اہمیت دے رہی کہ ن لیگ میں نئے شمولیت کرنے والے امیدوار اگر الیکشن ہار گے تو ن لیگ کے پلے کچھ نہیں رہے گا کیوں راجہ صغیر احمد کو ٹکٹ دینے سے ن لیگ کے اہم ترین رہنما راجہ ظفر الحق اور ان کے فرزند راجہ محمد علی اپنی پارٹی سے نالاں نظر آ رہے ہیں اب یہ حلقہ ن لیگ اور پی ٹی آئی کیلیئے چیلینج بن چکا ہے گزشتہ ہفتہ کو پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے کہوٹہ کے مقام پر ایک جلسے سے خطاب کیا ہے جس میں تقریبا 15ہزار کے لگ بھگ افراد نے شرکت کی ہے اس جلسہ میں بد مزگی بھی پیدا ہوئی کلرسیداں کے چند اہم رہنماؤں کو اسٹیج پر جانے سے روک دیا گیا جس کے نتیجے میں سابق ایم این اے صداقت علی عباسی کے خلاف نعرے بازی بھی ہوئی نتیجہ یہ نکلا کہ پی ٹی آئی میں اختالافت موجود ہیں جو پارٹی کیلیئے نقصان کا باعث بن سکتے ہیں اسی دن کلرسیداں میں تحریک لیبیک کے سربراہ حافظ سعد حسین رضوی نے اپنے امیدوار حافظ منصور ظہور کی انتخابی مہم کے حوالے سے ایک جلسہ کیا جسمیں تقریبا 10ہزار کے قریب افراد نے شرکت کی ہے ان کا یہ جلسہ قابل دیدنی تھا جلسے کے دوران نظم و ضبط اپنی مثال آپ تھا ٹی ایل پی بھی دوسری سیاسی جماعتوں کے سر پر چڑھ چکی ہے ان کا بھی حلقہ میں ووٹ کافی زیادہ تعداد میں موجود ہے
ازاد امیدوار راجہ نزاکت پی ٹی آئی امیددوار کرنل شبیر اعوان پی ڈی ایم امیدوار راجہ صغیر جماعت اسلامی راجہ تنویر ٹی ایل پی منصور ظہورر
وہ بھی اپنا اثر ضرور دکھائے گے بروز جمعرات ن لیگ نے بھی کلرسیداں میں اپنا پاور شو کیا ہے جسمیں عوام کی ایک بہت بڑی تعداد نے شرکت کی ہے اول تو جلسہ کیلیئے جس جہگہ کا انتخاب کیا گیا ہے وہ ہی بلکل اس جلسہ کے قابل نہ تھی ن لیگ کے اس جلسہ میں مقامی افراد کے ساتھ ساتھ حلقہ سے باہر بھی بہت زیادہ تعداد میں عوام نے شرکت کی ہے اس جلسہ کی ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ ن لیگ کے امیدوار جن کی خاطر یہ جلسہ رکھا گیا تھا وہ بطور احتجاج ناراض ہو کر پنڈال سے باہر چلے گے کیوں کہ ان کے کچھ خاص دوستوں کو سٹیج پر جانے سے روک دیا گیا تھا بڑی مشکل سے ان کو منا کر تقریر کروائی گئی انہوں نے اپنے کارکنوں کو اہمیت دیتے ہوئے اپنی اعلی قیادت سے بھی ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور یہی خوبیاں ان کی کامیابی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں ن لیگ کے اس پاور شو میں حلقہ کی کچھ اہم سیاسی شخصیات جن میں راجہ ظفر الحق اور ان کے فرزند سابق ایم پی اے شامل ہیں نے جلسہ میں شرکت نہیں کی ہے ن لیگ پنجاب کے نائب صدر قمر السلام راجہ جنہوں نے اس جلسے کو کامیاب بنانے کیلیئے بہت زیادہ محنت کی تھی ان کو بھی جلسے کے بہت سے معاملات سے دور رکھا گیا ہے جس سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ن لیگ میں بھی اختلافات موجود ہیں اندرونی اختلافات سیاسی پارٹیوں کیلیئے زہر قاتل ثابت ہوتے ہیں جس وجہ سے وہ بظاہرکامیاب پاور شو کرنے کے باوجود بھی عملا ناکام نظر آئے قمر السلام راجہ کا بلکل سائیڈ لائن پر رہنا راجہ صغیر کا ناراض
ہو کر باہر چلے جانا بھی کچھ معنی رکھتا ہے ن لیگ میں بھی کوئی لابی موجود ہے جو صرف اپنے من پسند افراد کو پروموٹ کر رہی ہے اس جلسہ میں سابق ایم پی اے محمود شوکت بھٹی بہت زیادہ متحرک دکھائی دیے ہیں ن لیگ کا یہ جلسہ دیگر تمام سیاسی پارٹیوں کے جلسہ پر بھاری رہا ہے لیکن اس میں کمی و کوتاہیاں واضح دکھائی دیتی رہی ہیں ادھر آزاد امیدوار کرنل وسیم بھی ن لیگ سے تعلق رکھتے ہیں وہ بھی حلقہ میں ایک مقام رکھتے ہیں وہ بھی ن لیگ کے ووٹوں میں سے کچھ حصہ ضرور لیں گے جماعت اسلامی نے بھی جمعہ کے روز کہوٹہ کے مقام پر جلسہ منعقد کیا ہے جس میں مولانا سراج الحق نے شرکت کی ہے جماعت اسلامی کی پالیسیاں تو بہت اچھی ہیں ہر مشکل وقت میں جماعت اپنی قوم کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آتی ہے لیکن جب ایک چھوٹی سی پرچی کا وقت آتا ہے لوگ ان کی خدمات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں بہر حال اس حلقہ میں جہاں سیاسی پارٹیاں بہت زیادہ دلچسپی لے رہی ہیں وہاں عوام میں بھی ایک خاص جوش و خروش پایا جا رہا ہے ن لیگ اور پی ٹی آئی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں میں ون ٹو ون مقابلہ ہے دونوں پارٹیاں ہی بڑے بڑے جلسے کر رہی ہیں اور ایک دوسرے پر تند و تیز جملوں سے وار کر رہے ہیں عوام بھی بہت زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں اس وقت ن لیگ اور پی ٹی آئی کی جو پوزیشن سامنے دکھائی دے رہی ہے اس سے کوئی بھی نتیجہ اخذ کرنا بہت مشکل کام ہے الیکشن کا وقت بہت قریب پہنچ چکا ہے کامیابی ناکامی کا فیصلہ اللہ پاک کی ذات اور عوام کے ہاتھوں میں ہے عوام کس کو اپنا لیڈر منتخب کرتے ہیں اس کا فیصلہ17 جولائی ہو جائے گا