تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ وقت اپنے آپ کو ایک بار پھر دوراہے پر لا کھڑا کرتا ہے پاکستانی سیاست کی بات کی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دوسری جماعتوں سے ہجرت کر کے مفاداتی ٹولے نے سیاست کا چہرہ ہی بگاڑ دیا ہے اور ہر آمدہ الیکشن سے پہلے ان مفاداتی ٹولے کو پاکستان کی مقتدر حلقوں کی طرف سے جس رخ بھی کیا جائے اسی جانب ہانکتے جاتے ہیں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر اسی عوام کو لالی پاپ دے کر اپنے آپ کو اسٹبلشمنٹ کا مہرہ ثابت ہونے کا اعزاز حاصل کرتے ہیں بات کرتے ہیں اپنے گزشتہ حلقے راولپنڈی کے این اے 59 کی جو اب شائید نئی حلقہ بندی میں این اے 51 ہو کے سابق ایم این اے غلام سرور خان کی جن موصوف کا دعویٰ ہے کہ وہ گزشتہ 50 سال سے سیاست میں ہیں مگر ساتھ یہ بتانے میں اپنے حلقے کے عوام سے شرمندہ ہیں کہ وہ گزشتہ دور اقتدار میں کن کن پارٹیوں میں شامل رہے ہیں اور ہر بار پارٹی تبدیل کر کے اپنی ہی پارٹی کو پاؤں تلے روندنے کو اپنا فرض عین سمجھتے ہیں ان مفاداتی ٹولے کی سیاست کو ہر فورم پر بے نقاب کرنے میں اپنا حق سچ کا سفر جاری رکھتے ہوئے راقم آج بھی برملا اس بات کا اظہار کر رہا ہے کہ ان جیسے مفاداتی ٹولے کو صرف اور صرف اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے نہ کہ اہلیان علاقہ کی ووٹوں کی کوئی قدر ہے ان مفاداتی ٹولے کی۔میرے قارئین جانتے ہیں کہ اس حلقے میں میگا پروجیکٹ تو دور کی بات اپنے دور حکمرانی میں یہ پٹواری کو اپنے حلقے میں نہ لاسکنے والے کو پتہ نہیں ان مفاداتی ٹولے کا اصل چہرہ عوام کب پہچانیں گے
گو کہ ترقیاتی کاموں کے حوالے سے راقم نے اپنی یوسی تخت پڑی کے حوالے سے بھی چند گلیوں نالیوں کی تعمیرات میں اپنی ڈائری اگست 2021 میں لکھی مگر ساتھ ساتھ اہلیان حلقہ کو جنوری 2022 میں بھی ایک کالم میں غلام سرور خان اور صداقت عباسی کا اصل چہرہ دیکھانے کی کوشش کی جو کہ اب واضح طور پر ظاہر ہو گیا کہ گزشتہ الیکشن میں جس طرح مسلم لیگ ن کے امیدوار انجینئر قمرالاسلام راجہ کو سائیڈ لائن کر کے سرور خان اور چوہدری نثار کا راستہ صاف کیا گیا وہاں اگر دیکھا جائے تو منتخب ایم پی اے پی پی دس چوہدری نثار نے تو تین سال حلف نہ اٹھا کر اس حلقے کے ساتھ ذیادتی کی وہاں منتخب ایم این اے غلام سرور خان نے اپنے صرف ایک بیان میں پی آئی اے کی جو تباہی نکالی ہے ملکی سطح پر وہاں موصوف ایم این اے نے حلقے کے عوام کو ماسوائے جوڑیاں ہسپتال کا ادھورا کام چھوڑ کر کوئی اس حلقے کی عوام کی ووٹوں کی عزت کی نہ کوئی میگا پروجیکٹ نہ کالج ہسپتال بلکہ ہماری یوسی تخت پڑی جو کے آدھی سرور خان اور آدھی صداقت عباسی جیسے نااہلوں کے سپرد کی گئی وہاں سوئی گیس جیسی بنیادی ضرورت جو کہ باقی دیہات میں لگی ہوئی ہے مگر باقی ماندہ دیہات میں نہ لگا سکنے والے اس علاقے کے سابق ایم این اے سرور خان کو جہاں اہلیان علاقہ اچھے لفظوں میں یاد کر رہا ہے وہاں اسی تبدیلی سرکار نے موصوف ایم این اے کو اپنے ساتھ بغل میں دبائے رکھا اور آج وہی بغل بچہ کسی اور کی جولی میں جا گرا زرائع دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ موصوف بھی نئی پارٹی میں اپنے معاملات سیٹ کر رہی ہے وہاں اب دیکھنا یہ ہے کہ موصوف اپنے حلقے کے کتنے ایم پی اے کو ساتھ لے کر جاتے ہیں اور ساتھ اسی مفاداتی ٹولے میں کیا غلام سرور خان کے ساتھ چلنے والے اپنے اپنے علاقے کے کھڑپینچوں کا کیا بنے گا جو الیکشن کے موقع پر تو ہر غمی خوشی میں اپنے ایم این اے کو لے کر جانا اپنا اعزاز سمجھتے تھے وہ کدھر جائیں گے کیونکہ تبدیلی سرکار کے پرخچے جس طرح ہوا میں ریزہ ریزہ ہو کر اپنے مطلوبہ گھونسلے میں جا پہنچے وہاں ابھی بھی چند نا آقبت اندیش ابھی بھی اسی خواب خیال میں ہے کہ چیرمین پی ٹی آئی اگر کھمبے کو بھی کھڑا کریں گے تو ووٹ پڑیں گے سوائے انکی عقل پہ افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کیونکہ جس طرح نو مئی کو اس نوجوان نسل کی کند ذہن میں یہ بات بٹھا دی گئی تھی کہ ترکی کی طرح یہاں بھی انقلاب آئے گا اور اس افشائے زہر فشانی میں جو ملک دشمن کام نہ کر سکتے تھے وہ کام اس نوجوان نسل سے کروایا گیا اللہ پاک سے دعا ہے کہ اس ملک پاکستان پر اور افواج پاکستان پر اپنا رحم و کرم فرما آمین۔اور عوام کو بھی ان مفاداتی ٹولے کا اصل چہرہ دیکھنا چاہئیے کہ جو اپنی پارٹی سے مخلص نہیں وہ عوام سے کیا خاک مخلص ہوں گے