سیاست میں کوئی بھی چیز حرف آخر نہیں سمجھی جاتی اور بالخصوص ان حالات میں جب نظریاتی کارکنوں کو ساری زندگی ایک ہی جماعت کے گیت گاتے ہوئے پیرا شوٹر کو فرنٹ لائن پہ جماعت لے آئے تو پھر اس جماعت کا جنازہ زرا دھوم سے نکلنے کے مترادف ہو جاتا ہے بات کرتے ہیں مسلم لیگ ن کی ٹکٹوں کی تقسیم اور پھر ان کے حلقے میں پڑنے والے اثرات کی تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اس 2024 کے الیکشن میں جس طرح پیرا شوٹر کو آگے کر کے نظریاتی کارکنوں کی حق تلفی کی گئی اس کی مثال نہیں ملتی گجر خان سے لیکر ٹیکسلا واہ تک اگر نظر دوڑائی جائے تو پتا چلتا ہے
کہ مسلم لیگ ن نے مخالف امیدواروں کو بجائے ٹف ٹائم دینے کے ان کے لیے الیکشن آسان بنا دیا ہے جس طرح کا رگڑا خان سرور نے گزشتہ ادوار میں ن لیگ کو لگایا اسی کے لیے اس کے مقابلے میں کوئی امیدوار کھڑا نہ کرنا اور پھر اسی طرح صوبائی سیٹوں کی تقسیم میں بھی میرٹ کو مدنظر نہ رکھنے کا خمیازہ الیکشن میں بھگتنے کو تیار رہے پیپلز پارٹی نے بھی این اے 53 اور صوبائی پی پی 10 کے لیے اپنا کوئی امیدوار کھڑا نہ کر کے چوہدری نثار کا راستہ صاف کر دیا ہے اسی طرح مسلم لیگ ن نے جہاں راولپنڈی کی صوبائی سیٹوں کا معاملہ الجھایا ہے وہاں اپنے حلقے پی پی دس کی بات کریں تو یہ حلقہ بھی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالکان کے حوالے کر کے نظریاتی کارکنوں کو سائیڈ لائن کر دیا ہے این اے 53 سے مسلم لیگ ن کے امیدوار انجینئر قمر السلام راجہ کا عام آدمی کارواں بظاہر لگ یہی رہا ہے
کہ وہ اس ہچکولے کھاتی کشتی کو سنبھالنے میں ناکام نظر آرہے ہیں ایک طرف آزاد امیدواروں کو سنبھالنا اور اوپر سے جن کے خلاف پبلک میں ایف آئی آر وغیرہ کو لہرانا کہ یہ بندہ تو اتنے مقدمات میں ملوث ہے آج کس طرح اسے اپنے ساتھ ملا کر اپنی ہی پارٹی کے لیے ووٹ مانگیں گے سوشل میڈیا کے اس دور میں کوئی بھی چیز ڈھکی چھپی نہیں رہ سکتی کہتے ہیں نا کہ کمان سے نکلا تیر اور منہ سے نکلی بات واپس نہیں آ سکتی بلکل اسی طرح جو لوگ آج ن لیگ اس حلقے سے انہیں نواز رہی ہے اس کا سدباب کرنا بظاہر مشکل ہی لگتا ہے قارئین کو یاد ہو گا کہ اس حلقے سے تین سال حلف نہ اٹھانے پہ جو چوہدری نثار کو کہتے تھے
وہ اس موجودہ سیاسی صورتحال کو مدنظر رکھیں تو نظر آتا ہے کہ اس سے بڑی زیادتی نظریاتی کارکنوں اور پارٹی کو پس پشت ڈال کر کی جا رہی ہے اپنی یوسی تخت پڑی کی بات کروں تو فی الحال بظاہر یہی نظر آ رہا ہے کہ گزشتہ ادوار میں جس طرح دو حصوں پر مشتمل اس یوسی کا حال کیا گیا اب اس بار مری سے گجر خان کے ساتھ آدھی یوسی این اے 52 اور این اے 53 کے ساتھ جوڑی گئی اس یوسی تخت پڑی میں این اے 52 میں ایک بڑا اور کامیاب جلسہ سابق چیئرمین چوہدری خلیل احمد نے پرویز اشرف کا کر کے سیاست کا رخ تبدیل کر دیا ہے
اسی طرح این اے 53 سے بھی اس یوسی سے چوہدری نثار،قمر السلام اور ٹی ایل پی کے ووٹ تقسیم ہیں مگر پرویز اشرف کی پوزیشن مضبوط ہو رہی ہے جاوید اخلاص بھی ڈور ٹو ڈور میٹنگز کرنے میں مصروف ہیں مگر حلقے کی موجودہ سیاسی صورتحال پرویز اشرف اور چوہدری نثار کے لیے اس وقت تک حالات سازگار لگ رہے ہیں۔(تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پی پی 12سے فیصل قیوم ملک نے ٹکٹ ہولڈر چوہدری الیاس کی حمایت کااعلان کر دیا ہے)