ثاقب شبیر شانی
اس بابت پوری دنیا میں بہت تحقیق ہوئی ہے اور ماہرین اس بات پر متفق ہیں کم عمری میں بچوں پر تشدد کئے جانے سے ان کی شخصیت صحت اورآمدہ زندگی پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں مار پیٹ کے نتیجے میں بچوں میں ڈر ‘ خوف‘ غصہ ‘ نفرت‘ سستی‘ شدت پسندی ‘ عدم خووداری اور خود اعتمادی کے فقدان کے علاوہ پیچیدہ دماغی اور نفسیاتی مسائل جنم لے سکتے ہیں سن لاشعوری میں گال پر رسید کئے گئے ایک تھپڑ کے اثرات تا عمر بچے کی شخصیت پر رہ سکتے ہیں ، انہی خدشات کے پیش نظر ترقی یافتہ ممالک میں نظام تعلیم کو ایسے خطوط پر استوار کیا گیا ہے جو بچوں میں موجود صلاحیتوں کو اْجاگر کرنے نکھارنے اور ان صلاحیتوں کا بہترین استعمال کرنے کے قابل بنانے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے مگر وطن عزیز میں اس سمت میں بھی اس سنجیدگی سے عملی کام نہیں ہوا جس کا یہ شعبہ متقاضی ہے گو کہ تعلیمی پالیسیوں کی بھرمار ہے ، موجودہ وقت میں سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی سیکٹر ز میں بچوں پر تشدد کرنے پر پابندی ہے مگر گاہے بگاہے اساتذہ کے طالبعلوں پر تشدد کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں خیر ہمارے زمانے میں جو کے بہت قدیم نہیں باقاعدہ فزیکل ریمانڈ ہوا کرتے تھے وہ بھی باقاعدگی سے آج بھی کبھی کوئی جماعتی مل جائے تو زمانہ طالبعلمی میں محترم اساتذہ کے ڈانگ سوٹوں اور محبت سے لبریز گالیوں بھرے قصوں کے تذکرے بناء ملاقات مکمل نہیں ہوتی ان واقعات کو یاد کرنے سے لطف تو خوب آتا ہے مگر مجھے نہیں یاد پڑتا اساتذہ کی اس قد ر جی توڑ محنت کے باوجود کوئی ڈاکٹر ‘ انجینئر‘ وکیل‘سائنسدان‘ جماعتی مجھے ملا ہو اب تو خیر پہلوانی طریقہ تعلیم کی گنجائش نہیں مگر سمجھ نہیں آتی سرکاری طور پر اس قدر پابندیوں کے باوجود اساتذہ مارکٹائی کی نہ صرف گنجائچ نکال لیتے ہیں بلکہ ان واقعات کے سامنے آنے کے باوجود محکمانہ کاروائی سے بچ جاتے ہیں ، ہم سب سمجھ سکتے ہیں کہ اساتذہ پر بھی بہت بوجھ ڈالا جاتا ہے اور ہر صورت اچھے نتائج دینے کادباو بھی بہت ہوتا ہے مگر یہ کہاں کا انصاف کہ بجائے نظام کے نقائص کی نشاندہی اسکی درستگی کے لئے کھڑے ہونے کے اپنا سارا غصہ طالبعلم پر نکال دیا جائے، طالبعلم بھی اپنی مثال آپ ہو سکتا ہے لیکن ان پر تشدد کر کے اساتذہ کس قسم کی مثال قائم کرتے ہیں؟ بہت سے اساتذہ میرے تعلق داروں اور دوستوں میں شامل ہیں جب بھی اس موضوع پر بات ہوتی ہے تو ایک مشترک جواب ضرور سننے کو ملتا ہے کہ سرکاری سکولوں میں آنے والے اکثر طلباء و طالبات انتہا کے کند ذہن ہوتے ہیں اور والدین کی عدم دلچسپی اور عدم توجہ کے سبب بھی نالائقی ان کا خاصہ ہوتی ہے، اور پھر جس انہماک محبت اور توجہ سے اپنے ان احباب کو پرائیویٹ اکیڈمیز میں علم کی چاندی لٹاتے اور بہترین نتائج حاصل کرنے پر سرشار دیکھتا ہوں تو سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ شاید یہ بچے فلک سے اترے ہوں گے، نہ صرف میرا خیال ہے بلکہ یقین ہے اور مروجہ تعلیمی پالیسیز بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ پہلوانی طریقہ تدریس ناکام ، ناقابل قبول طریقہ تدریس ہے ، ڈنڈا پیر اے بگڑیاں تگڑیاں دا کے سنہری اْصول پر عمل پیرا اساتذہ سے عاجزانہ التجاء ہے ’’مار نہیں ‘‘۔
148