زرتاشیہ مہوش/کافی عرصے کی قیاس آرائیوں،تجزیوں اورتجربات سے یہ بات ثابت ہوگی ہےکہ خون ہمیشہ وہی چوستا ہے جس کے خون، پرورش، کردار اور تربیت میں پیسے کی ہوس بالواستہ یا بلاواسطہ ہوتی ہے۔ یہ بات کسی حد تک ٹھیک ہے کہ جو لوگ سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں انکو پیسے کی ہوس نہیں ہوتی مگر یہ بات بھی درست ہے کہ جب انسان کے حالات اور وقت اتنا اچھا نہیں رہتا جس طرح وہ پہلے گزارتا تھا وہ اس قسم کے کاروبار کا آغاز کرتا ہے جس سے اس کو آمدنی ہی آؐمدنی آئے وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ آمدنی حلال ہے یا حرام! یہ بات بھی واضح کرتی چلوں کہ آج کل لوگوں میں یہ شعور جانتے بوجھتے ہوئے بھی ختم ہوتا چلا جا رہا ہے کہ حرام اور حلال میں کیسے فرق کرنا ہے لوگ سمجھتے ہیں صرف سود، زنا اور شراب حرام ہے باقی ہر قسم کی بے ایمانیاں، کرپشن، ملاوٹ انکے لیے جائز، حلال اور مناسب ہے۔اب آتے ہیں اصل بات کی طرف مجھے ایک بہت بڑی غلط فہمی تھی کہ پرائیویٹ اسکولز میں اعلی تعلیم یافتہ اساتذہ کے زیر نگرانی ہمارے جو بچے پڑھ رہے ہیں وہ اتنا پڑھ لکھ جاتے ہیں کہ انکی فیس ضائع نہیں جاتی میں پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کر رہی ہوں اور کچھ آنکھوں دیکھے مشاہدات پر بات کررہی ہوں کہ کس طرح پرائیویٹ اسکولز والے اپنا ایک فیک نام بناتے ہیں اور لوگوں سے پیسہ بٹورتے ہیں ایسے ہی ایک سکول کی کہانی میری ایک دوست کی زبانی ہےآئیے سنتے ہیں۔ وہ بتانے لگی پانچ سال سے ایک پرائیویٹ ادارے کے ساتھ منسلک ہوں جب شروع شروع میں گٰئی تو چونکہ میری ابتدائی تعلیم اچھے اورنامور ادارے سے تھی، تو میرا پڑھانے کا سٹائل باقی اساتذہ سے یکسر مختلف تھا بچے بھی مجھ سے مطمئین تھے مگر کچھ ہی دنوں میں میرے سامنے ایسے ایسے انکشافات ہوئے کہ میری عقل دنگ رہ گئی وہاں کی ٹیچرزمحض آنر کے ڈر سے، والدین کی طرف سے سختی اور پریشر سے بچنے اور اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے بچے کو رٹا لگواتی ہیں، پیپر سے کم از کمدو، تین ہفتہ پہلے صرف وہی سوالات یاد کروائے جاتے ہیں جو پیپر میں آتے ہیں چاہے اس میں حصہ معروضی ہو یا حصہ موضوعی اور اس سے وہ بچے جنکا فہم (آئی کیو لیو) کافی اچھا ہوتا ہے یا عام فہم بچوں سے کہیں زیادہ ہوتا ہے وہ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنا چھوڑ دیتے ہیں اوراوسط اور اوسط سے کم بچے جو لکھنے کی کوشش کرتے تھے یوں وہ رٹے پر اکتفا کرنے لگتے ہیں اور اس سے انکی صلاحیتوں پر پانی پھر جاتا ہے۔ دوسرا بڑا انکشاف کہ ایسے ایسے بچوں کواگلی جماعت میں پرموٹ کیا جاتا ہے جو انگریزی یا اردو میں دو سطریں بھی لکھنے کے قابل نہیں ہوتے صرف اس لیے کہیں وادین بچہ نہ اٹھا لیں یا سکول آنر یا پرنسپل کی طرف اساتذہ کی انسلٹ نہ ہو۔ تیسری اہم بات اگر سو نمبر کا پرچہ ہے تو بچے کے دس یا پانچ نمبر آئے تو اسکو 33 یا 40 نمبر دے کر پاس کر دینا۔ میری ایک کولیگ نے مجھے سمجھایا کہ جیسا یہاں چل رہا ہے تم بھی اسی کو فالو کرو کیوں خود کو ڈی گریڈ کرواتی ہو یوں تمھاری عزت نہیں ہوگی اورسارا الزام تم پرآئے گا کہ یہ ٹیچر اچھا نہیں پڑھاتی اس لیے فلاں فلاں مضامین میں بچوں کی کارکردگی بری ہے۔ میں نے بھی یہی سوچا کہ اب کی بار ایسا ہی کروں گی مگر وقت آنے پر میں نے وہی کیا جیسے میرے ضمیر نے مجھے کرنے کو کہا کیونکہ مجھے نپولین کا وہ جملہ نہیں بھولتا کہ “آپ مجھے پڑھی لکھی مائیں دیں میں آپ کو پڑھا لکھا معاشرہ دوں گا” ۔ یہ بات کتابی ہے مگر اس نے سمندر کو کوزے میں بند کیا ہے۔ اور دو جہان کے سردار حضرت محمد نے فرمایا: “تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے” تو کس طرح ہم اپنے ضمیر کا سودا کر سکتے ہیں اور اپنے فرائض سے غافل رہ سکتے ہیں۔اپنی سوسائیٹی کے ان تلخ حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اپنی نسلوں میں یہ آگاہی ضرور دوں گی کہ آپ اپنے بچے کو ہوم ٹیوٹرسے مستفید کروائیں یا بچے کو اپنی نگرانی میں رکھیں یوں وہ بہت سے مضامین پردسترس/عبور حاصل کر لے گا۔ اس کی بہترین مثال رائے مْنظور ناصر(جوایجوکیشن ایم ڈی رہ چکے اور اسی کرپٹ نظآم کے خلاف لڑتے لڑتے اپنے عہدے سے معزول کر دیے گئے خیر یہ ایک الگ بحث ہے)۔ ان کے بیٹۓ رائے منظور حارث کی مثال یہاں دیتی چلوں جس بچے نےنوسال کی عمرمیں او لیول میں ورلڈ ریکارڈ بریک کیا اوریہ سب رائۓ منظور ناصر اور انکی مسز کی کاوش اور محنت کا نتیجہ ہے جو بغیر کسی اسکول اور اساتذہ کے اس ایگزام میں ایپیر ہوا اور کامیابی حاصل کی اور خود کو اگلی نسلوں کے لیے کمسن عمر میں ایک بے مثال ہیرو کے طور پر منوایا۔
213