ارسلان کیانی/
پاکستان کی ایٹمی تحصیل کہوٹہ جو باب کشمیر بھی کہلاتی ہے جرائم کی آماجگاہ بن چکی ہے کئی سالوں سے پولیس اور چند سیاسی لوگوں کی پشت پناہی ٹاؤٹ مافیا کی وجہ سے کہوٹہ شہر اور گردونواح میں منشیات فروشی کے اڈے قائم ہیں چرس پوڈر شراب غیر قانونی اسلحہ کی بھرمار نوجوان نسل تباہی کے دہانے پر آگئی جبکہ جگہ جگہ جوئے اور فحاشی کے اڈے قائم ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں سر عام گن پوائنٹ پر ڈکیتیاں ہو رہی ہیں آئے روز چوری کی وارداتوں میں اضافہ ہورہا ہے دوکانوں گھروں کے تالے توڑ کر کروڑوں روپے طلائی زیورات نقدی اور دیگر سامان چوری کر کے لے جاتے ہیں گزشتہ دو ماہ میں پانچ سے زائد قتل کی وارداتیں ہو چکی ہیں جنکے پیچھے جواء منشیات و دیگر جرائم کارفرما ہیں مقامی سیاسی قیادت اپنے مرضی کے ایس ایچ او لگوا کر نہ صرف چور ڈاکوں منشیات فروشوں کو تحفظ دیتے ہیں بلکہ بڑے بڑے لینڈ مافیا گروپ ان لوگوں کو استعمال کر کے پولیس کو بھاری رشوت دیکر غریبوں کی زمینوں پر قبضے کرتے ہیں تھانہ کہوٹہ میں ٹاؤٹ مافیا کا راج ہر تھانے میں اپنا الگ تھانہ بنا ہوا ہے نہ صرف کہوٹہ شہر بلکہ دیہاتوں میں بھی منشیات فروشی،غیر قانونی اسلحہ سرعام فروخت ہو رہا ہے جبکہ اسی راستے کشمیر میں بھی یہ چیزیں سپلائی ہو رہی ہیں کاش کسی سی پی او، ڈی ایس پی، ایس ایچ او کا بیٹا پوڈری ہو تو انکو علم ہو کہ نشہ کیا چیز ہوتی ہے ایسی کوئی وجہ نہیں کہ پولیس ان جرائم سے لاعلم ہو یونین کونسل نڑھ، پنجاڑ و دیگر علاقوں میں جو قتل کی وارداتیں ہوئیں انکی وجہ سے چند لوگوں کے ضمیر جاگ اٹھے اور نڑھ میں گرئنڈ جرگہ بھی ہوا جس میں اہم سیاسی، قانونی، تعلیمی و دیگر شخصیات موجود تھیں جنہوں نے سیاست مفاد سے ہٹ کر جرائم کے خاتمے کے لیے نسل نو کو بچانے کا عزم کیا اسکے بعد پھر ڈکیتی ہوئی اور خیام عباسی نوجوان کو بے دردی سے قتل کیا گیا پھر کہوٹہ میں اجتماع ہوا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زخموں کو مرہم لگتا گیا اور لوگ بھوک گے مگر آج جہاں ہمارے مقامی سیاسی لوگ جو صرف اپنے ووٹ کی خاطر چوروں ڈکیتوں منشیات فروشوں کی پشت پناہی کرتے ہیں پولیس جو صرف پیسے کی خاطر ایسے لوگوں کو چھوڑ دیتی ہے ان سے برھ کر ہم لوگ خود ذمہ دار ہیں جو برائی کو دیکھ کر خاموش رہتے ہیں
آج جتنے جرائم پیشہ لوگ ہیں انھوں نے کہوٹہ میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور ہمارے ہی چند لوگ شاہد انکی پشت پناہی کرتے ہیں جس کو وجہ سے بے تحاشہ غیر قانونی اسلحہ ہوائی فائرنگ، اور منشیات فروشی جوئے فحاشی کے اڈے قائم ہیں کہوٹہ جو پر امن شہر تھا کراچی لیاری بن گیا کالج سکول کے بچے منشیات کے عادی بن چکے ہیں اگر اب بھی اس علاقے کی سیاسی قیادت والدین نے اقدامات نہ کیے تو حالات بہت خراب ہو جائیں گے جسطرح ایک نعرہ لگایا جاتا ہے کہ ہر گھر سے بھٹو نکلے گا تم کتنے بھٹو مارو گے اسی طرح یہ نعرہ عام ہونے کا خدشہ ہے کہ ہر گھر سے چرسی پوڈری نکلے گا تم کتنے چرسی پوڈری پکڑو گے اس ایٹمی تحصیل کو نہ آپ لوگوں نے سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال بنایا نہ موٹروے دی نہ پانی نہ سڑکیں ہسپتال میں سہولیات کا فقدان عملے ڈاکٹرز کی کمی جنگلات کو گاجر مولی کہ طرح کاٹا جا رہا ہے محکمہ مال و دیگر اداروں میں من پسند لوگ لگا کر کرپشن کا بازار گرم ہے سال و سال نہ کسی نمائندے نہ انتظامیہ کے افسر نے کھلی کچہری لگائی نہ عوام کے مسائل سنے گے۔ حکمران عوامی نمائندے اگر ان نوجوانوں کو نوکری نہیں دے سکتے تو خدارہ انکو جرائم پیشہ افراد نہ بنائیں یونین کونسل نڑھ جسکو دنیا دیکھنے آنے کا شوق رکھتی ہے اس خوبصورت پر امن علاقے میں ایسی وارداتوں سے سیاح بھی اس علاقے کا رخ نہیں کر رہے انکو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اقدامات ضروری ہیں پولیس کی نفری کم ہے اسکو بڑھانے کہ ضرورت ہے اتنی بڑی تحصیل پہاڑی علاقے میں ایک اور تھانہ ہونا اہم ضرورت وگرنہ 2 چوکیاں لازمی قائم کی جائیں تا کہ دو دراز علاقوں میں بروقت کاروائی یقینی بنائی جا سکے تھانہ کہوٹہ سے ٹاوٹ مافیا کا خاتمہ سیاسی من پسند پولیس افسران کی تعیناتی کو روکنا اہم ضرورت ہے تمام سیاسی قیادت معززین کو چائیں مل بیٹھ کر جرائم کی روک تھام کے لیے اقدامات کریں فحاشی عریانی سودی نظام، منشیات فروشی چوری ڈکیتی قتل و غارت ناجائز اسلحہ کو ختم کرانے کے لیے حکمت عملی تیار کی جائے پولیس افسران سے گزارش ہے کہ خدارا لڑائی جھگڑوں میں صلاح صفائی کروائیں دیگر چھوٹے موٹے معاملات میں مگر چوری ڈکیتی، منشیات فروشوں کے خلاف کوئی رعایت نہیں برتیں تا کہ اس شہر کا امن واپس بحال ہو سکے دعا گو ہوں کہ اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔