جواد اصغر شاد
جرائم پر قابو پانے میں معاشرتی اور ثقافتی اقدار انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، جب تک معاشرے میں عملی طور پر برائی کے خلاف سخت رد عمل پیدا نہیں ہوتا، اس وقت تک جرائم کی جڑیں مضبوط ہی رہتی ہیں۔ معاشرے میں اعلی اقدار اور اچھے اخلاق کے ذریعے ہی اس منفی رویے کی حوصلہ شکنی ممکن ہے۔ اگر معاشرے سے مجرمانہ سرگرمیوں کا خاتمہ مقصود ہے تو سب سے پہلے معاشرے کے اندر ہی مجرمانہ سرگرمیوں کے محرکات کی تلاش اور پھر اسکا قلع قمع ضروری ہے کیونکہ جرائم پیشہ عناصر بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔معاشرے کا حال یہ ہے کہ جس شخص میں مجرمانہ صلاحتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہے اور وہ کامیابی سے جرم کا ارتکاب کر لیتا ہے، اسے معاشرے کا کامیاب فرد سمجھا جاتا ہے، اسی طرز عمل کی وجہ سے معاشرے میں نہ چاہتے ہوئے بھی جرائم پیشہ عناصر کی حوصلہ افزائی ہوتی رہتی ہے۔ مجرمانہ سر گرمیوں کے خاتمہ کیلئے اس سوچ کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ پولیس کے اعلیٰ افسران کی جانب سے شہر کے مختلف حصوں میں کھلی کچہریوں کا انعقاد خوش آئند ہے مگر ضرورت یہ بھی ہے کہ ان کچہریوں کو محض کاغذی کارروائیوں تک محدود نہ کیا جائے۔ گورنمنٹ گرلز ہائی سکول دھاماں سیداں میں سی پی او سید شہزاد ندیم بخاری کی جانب سے کھلی کچہری منعقد کی گئی جس میں ایس پی صدر احمد زنیر چیمہ، ڈی ایس پی صدر سرکل، کاظم نقوی ایس ایچ او صدر بیرونی ظہیر الدین بابر و دیگر شری تھے، اس موقع پر شہریوں نے کثیر تعداد میں سی پی او کو اپنے مسائل و شکایات سے آگاہ کیا جس پر سی پی او نے احکامات جاری کئے اور دو تھانوں کو ایس ایچ اوز کو شو کاز نوٹسز بھی جاری کئے گئے۔ ان کھلی کچہریوں میں عام شہریوں کو ایسا ماحول فراہم کیا جائے جس میں وہ بے جھجک اپنے مسائل بیان کر سکیں۔ ورنہ عموماً یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ معاشرے کے بااثر افراد کو ہی ان کچہریوں میں مدعو کر لیا جاتا ہے اور سادہ شہری ان کے سامنے اپنی بات کرنے سے ہچکچاتے ہیں کیونکہ عوام کی بڑی تعداد کو انہی کی وجہ سے مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ کھلی کچہریاں یہ بھی ظاہر کرتی ہیں کہ شاید تھانے شہریوں کو انصاف کی فراہمی میں اپنا موثر کردار ادا نہیں کرتے جس کی وجہ سے ان کچہریوں کے انعقاد کی ضرورت پیش آتی ہے۔
یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ راولپنڈی پولیس میں ایس ایچ اوز اور تھانے کے عملہ کے تبادلوں کا نظام انتہائی فرسودہ ہے جو صرف ذاتی، میڈیا اور سیاسی وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے۔ آئے دن یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک تھانے میں کوئی سکینڈل سامنے آنے پر ایس ایچ او اور دیگر عملہ کا تبادلہ دوسرے تھانے میں کر دیا جاتا ہے۔ عوامی حلقوں کا سوال ہے کہ کیا دوسرے تھانے میں تبادلہ کرنے سے یہ پولیس اہلکار ”صاف“ ہو جاتے ہیں؟ اگر ایک افسر یا اہلکار کسی ایک تھانے میں اچھی پرفارمنس نہیں دکھا رہا تھا تو کیا دوسرے تھانے میں بھیجنے سے مسائل حل ہو جائیں گے؟ یا پھر ان تبادلوں کی نوعیت سراسر سیاسی ہوتی ہے؟۔
یہ بات بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ جرائم پیشہ عناصر کیخلاف کی جانے والی کارروائیوں کو افسران اپنے ”کھاتے“ میں ڈال لیتے ہیں جبکہ بری کارکردگی کو تھانے کے عملے کے حصے میں ڈال دیا جاتا ہے جس سے پولیس اہلکاروں میں بے چینی کی کیفیت رہتی ہے کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ اچھی کارکردگی پر شاباش تو جانے ملے یا نہیں لیکن غلطی کی صورت میں نزلہ انہی پر گرے گا۔ مسائل کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جب کسی تھانے کا ایس ایچ او یا دیگر عملہ اس علاقے کی مسائل کی نوعیت سے آگاہ ہوتا تو انکا تبادلہ کر دیا جاتا ہے، یوں یہ افسران یا اہلکار راولپنڈی شہر کے عمومی مسائل سے تو آگاہ ہو
جاتے ہیں لیکن درحقیقت کسی بھی علاقے کے معاملات پر انکی ”گرفت“ نہیں رہتی اور اسی وجہ سے وہ جرائم کے خاتمے کیلئے لانگ ٹرم پلاننگ نہیں کر سکتے۔ توقع ہے کہ شاید پولیس کے اعلیٰ افسران و دیگر حکام صورتحال کی بہتری کیلئے سنجیدہ کوششیں کریں گے۔