94

پولیس اولیمپیئن تیراک کے قاتلوں کا سراغ لگانے میں ناکام

تھانہ جاتلی کے علاقہ گاؤں فریال داخلی نڑالی میں دو ماہ قبل قتل ہونے والا حساس ادارے کا ملازم اولمپئین تیراک محمد مصطفی اعوان کے قاتل تاحال گرفتار نہ ہو سکے۔ 11جنوری کو اولمپئین تیراک محمد مصطفی اعوان کو دن دیہاڑے دن دیہاڑے بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ یہ واقعہ کسی عام فرد کے ساتھ پیش آیا ہوتا تو بھی ناقابل برداشت تھا لیکن ہوا بھی تو پاکستان کے اولمپئین تیراک محمد مصطفی اعوان کے ساتھ۔ یہ نوجوان ابو ظہبی میں منعقد ہونے والے بین الاقوامی تیراکی چیمپئین شپ مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کے بعد ایک مہینہ چھٹی پر گھر آیا ہوا تھا۔ اس کے قتل پر علاقے میں کہرام مچ گیا والدین پر غشی کے دورے پڑ رہے تھے۔ بھائی دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے ہر شخص کی آنکھ اشکبار تھی۔ قتل کس نے کیا اور کیوں کیا؟اس پر تحقیقات جاری ہیں لیکن تا حال پولیس کسی بھی ملزم کو ٹریس کرنے میں ناکام ہے۔علاقے کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ ہوا۔محمد مصطفی اعوان غریب والدین کا بیٹا تھا۔ اس کا والد قرض میں جکڑا ہوا تھا۔ محمد مصطفی کے عالمی کھلاڑی بننے پر اب امید ہوچلی تھی کہ یہ والد کا دست و بازو بنے گا اور اس کو سہارا ملے گا لیکن خدا کو شائد کچھ اور ہی منظور تھا۔ اس کے قتل پر جس بھی تفتیشی ادارے کے اہلکار سے بات ہوئی اس کا جواب تھا کہ یہ سیدھا سادا سا قتل کا کیس ہے جو دنوں میں نہیں بلکہ گھنٹوں حل ہوجائے گا۔پولیس تھانہ جاتلی نے بھی لواحقین کو یقین دہانی کرائی کہ ہمارے ہاتھ بہت جلد نامعلوم قاتلوں کے گریبانوں پر ہونگے اور انہیں طفل تسلیاں دیتے رہے۔فرانزک لیبارٹری رپورٹس اور جیو فینسنگ کے باوجود پویس ملزمان کو ٹریس کرنے میں ناکام ہے۔ محمد مصطفی اعوان کو فون کال کرکے گھر سے باہر بلایا گیا اور کچھ دیر بعد گھر سے چند قدم کے فاصلے پر اس کی میت پڑی تھی۔ نرخرے پر گولی ماری گئی تھی جو سر کے پچھلے حصے سے باہر نکل گئی تھی، موقع پر جو خون تھا وہ تو ذبح کی گئی مرغی کے خون سے بھی کم مقدار میں تھا اس لیے خیال یہ کیا جارہا تھا کہ قتل کسی اور جگہ کرکے لاش بعد میں یہاں پھینکی گئی ہے۔اس وقت کے سی پی او ساجد کیانی نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ایس ایس پی انویسٹی گیشن سید غضنفر عباس کی سربراہی میں ہائی لیول تحقیقاتی کمیٹی قائم کی تھی جبکہ تھانے کی سطح پر الگ سے تحقیقات کی جارہی تھیں، پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق مصطفی کو انتہائی قریب سے گردن پر گولی ماری گئی جو جان لیوا ثابت ہوئی، ملزمان کو تلاش کرنے کی کوشش میں انکشاف ہوا کہ واردات کے بعد فرار ہوتے ہوئے ملزمان نے محمد مصطفی اعوان کا موبائل نمبر بند کردیا تھاپولیس کے مطابق ملزمان انتہائی چالاک ہیں‘دو ماہ کی تحقیقات میں کوئی بھی ملزم ٹریس نہیں ہوسکا، پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول کے قریبی رشتہ داروں سے بھی پوچھ گچھ مکمل کرلی گئی ہے لیکن کسی بھی قسم کا جائیداد کا تنازعہ یا دیگر رنجش سامنے نہیں آسکی۔عوامی و سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ عام طور پر قتل کی تین ہی وجوہات ہوتی ہیں: زن، زر اور زمین کیا پولیس نے تینوں پہلوؤں سے تفتیش کی ہے یا نہیں، ہماری جاتلی پولیس کا ویسے بھی یہ ریکارڈ ہے کہ اس نے اس طرح کا اندھا قتل کبھی ٹریس نہیں کیا، دولتالہ میں دو گونگے بہن بھائی کو قتل کردیا گیا اور اصل قاتل کو پولیس نے بے گناہ کردیا تھا اور بعد میں جب مقتول کی ہڈیاں دریافت ہوئیں تو لوگوں نے پولیس کو قاتل تک پہنچایا، اس سے بھی قبل جو بھی اندھا قتل ہوا جاتلی پولیس ملزمان کو ٹریس کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی، اب یہاں بھی قاتل پولیس کی نظروں کے سامنے ہے لیکن جدید ٹیکنالوجی ہونے کے باوجود پولیس اس تک پہنچنے میں ناکام ہے اور تفتیشی یہ چاہتا ہے کہ مدعیان قاتل کو نامزد کریں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ جو سیدھا سادا قتل کیس کا دعویٰ تھا وہ کیا ہوا؟ یہ بات زبان زد عام ہے کہ قاتل قریبی رشتہ دارہے جس پر مقتول مصطفی کو اندھا اعتماد تھا اور جس کی کال پر وہ باہر نکلا اور جوتے پہننے بھی گوارا نہیں کیے،کیا پولیس کو اس بات کا اندازہ نہیں ہے؟ کیا اب کی بار بھی قاتل کو پکڑ کر جاتلی پولیس کے حوالے کیا جائے اور پھر ان کے گلے میں میڈل لٹکائے جائیں؟ پولیس کے اعلیٰ حکام کو جاتلی پولیس کی کارکردگی پر اٹھنے والے سوالات کا نوٹس لینا چاہیے، لوگوں کا کہنا ہے کہ انسپکٹر میاں عمران کو جب قتل کیا گیا تو ناصرف اس کے قاتلوں کو ٹریس کرلیا گیا بلکہ انہیں پھڑکا دیا گیا، کیا محمد مصطفی اعوان کا خون یوں ہی رائیگاں جائے گا کیونکہ یہ ایک غریب باپ کا بیٹا تھا؟کیس پر تحقیقات جاری ہیں توقع ہے کہ ملزمان جلد یا بدیر گرفتار ہوجائیں گے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں