قارئین کرام! وطن عزیز میں مخالف سیاسی جماعتوں کو ٹارگٹ کرنا حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ کا پرانا وطیرہ ہے، لیکن ماضی میں اس قدر سختی دیکھنے میں نہیں آتی تھی، ن لیگ کی حکومت تھی اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے وطن واپسی کا اعلان کیا تو رات کے اندھیرے میں انکے مرکز پر چڑھائی کی گئی، دن کی روشنی میں لوگوں کو گولیاں ماری گئیں، کئی دن اس علاقے کا مسلسل محاصرہ کیا گیا، لیکن اس کے باوجود مقتدر حلقوں نے مداخلت کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرین کو اسلام آباد آنے دیا۔۔ پھر دنوں نہیں بلکہ مہینوں تک ڈی چوک پر مظاہرین بیٹھے رہے اور بغیر مطالبات منوائے واپس چلے گئے۔۔ لیکن اب موجودہ صورتحال اس سے زیادہ بھیانک ہو چکی ہے، اب بات چیت کی بجائے ڈنڈا اور بندوق کا استعمال ہو رہا ہے جو کہ قابل مذمت ہے، کچھ برس قبل ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا تھا کہ عنقریب اس ملک میں پرامن احتجاج کے لیے کسی کو باہر نہیں نکلنے دیا جائے گا، اٹھنے والی آوازوں کو دبا دیا جائے گا، آج اس شخص کی کہی ہوئی باتیں سچ ثابت ہو رہی ہیں، میں اسی وجہ سے اس شخص کو دور اندیش مانتا ہوں کہ وہ دس سال بعد ہونے والے واقعات کا مشاہدہ کر لیتا ہے،بہت افسوس کی بات ہے کہ وطن عزیز میں اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی بجائے دوسروں کو ٹارگٹ کرنا پاکستانی اداروں کا وطیرہ بن چکا ہے، سوشل میڈیا پہ تنقید ہو تو پیکا ایکٹ اور سائبر کرائم کے ذریعے منہ بند کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پہ تنقید ہو تو اداروں پر پریشر ڈال کر انکو وہاں سے نکلوایا جاتا ہے اور پھر مختلف طریقوں سے انکو ہراساں کر کے منہ بند کرایا جاتا ہے، حتی کہ ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے، اسی وجہ سے موجودہ صورتحال کو میں سول مارشل لاء سے تشبیہہ دیتا ہوں۔
علاقائی صحافت میں راقم کو تنقیدی صحافی کے طور پر جانا جاتا ہے کیونکہ میں اداروں اور اداروں میں موجود جزوقتی لوگوں سے تعلق پالنے کو اہمیت نہیں دیتا بلکہ میں ان ایشوز کو ہائی لائٹ کرتا ہوں جن سے تعلقات خراب ہوتے ہیں، جنکا تعلق براہ راست عوام سے ہوتا ہے، کیونکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ تعلق پالنے سے آپکی گرفت مسائل پہ کمزور ہو جاتی ہے۔۔۔۔
پنجاب پولیس پنجاب کا ایک اہم ادارہ ہے اور اس میں اصلاحات کی بجائے اسکو سیاسی پرزے کے طور پر ہمیشہ سے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور اب بھی کیا جا رہا ہے، جس کا نقصان بطور ادارہ پنجاب پولیس کو اور بالعموم اہل پنجاب کو ہو رہا ہے، کارکردگی کے لحاظ سے اس ادارے پہ تنقید ہوتی رہتی ہے اور جہاں کارکردگی اچھی ہو وہاں تعریف بھی ہوتی ہے تاہم اب یہ فضا چل پڑی ہے کہ تنقید کرنے والے کی آواز کو مختلف طریقوں سے دبایا جائے۔راقم کے اس ادارے کے بہترین اور اچھے کام کرنے والے افسران سے روابط تھے اور اب بھی ہیں جنہوں نے ہر جگہ تعیناتی کے دوران لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے اقدامات کئے اور کر رہے ہیں، لیکن ایک بڑی تعداد اس ادارے میں ایسے لوگوں کی ہے جو ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھ کر تعریفیں سننے کے عادی ہیں یا سننا چاہتے ہیں اور وہ سب سے ایسی توقع رکھتے ہیں۔۔ اگر انکی عادت کے خلاف کوئی بات کرے توانکو ناگوار گزرتی ہے۔۔ وہ یہی چاہتے ہیں کہ ہم جو مرضی کر گزریں کوئی ہم پہ تنقید نہ کرے، یعنی وہ ادارے اور افسران کو اپنی مرضی منشاء کے مطابق چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔۔
کچھ ایسی صورتحال دو ہفتے قبل میرے ساتھ پیش آئی کہ رات کے بارہ بج کر پچاس منٹ پر میرے گھر کا دروازہ بجا تو میری یکدم آنکھ کھل گئی، دروازہ کھولنے سے پہلے دروازے کی سائیڈ سے باہر دیکھا تو سول کپڑوں میں دو افراد موجود تھے جو مجھے آواز دے رہے تھے، باہر آو، میری چھٹی حِس نے فوری کام کیا کہ دروازہ نہیں کھولنا، میں دروازے سے پیچھے ہٹا اور گھر والوں کو بولا کہ پتہ کریں کون ہے، میری پوچھیں تو کہیں کہ گھر نہیں ہے اور آپ لوگ کون ہیں جو رات کے ایک بجے دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں، میں اپنے گھر
ہی موجود رہا اور جب میرے گھر والوں نے باہر گلی کی لائٹ آن کر کے تھوڑا شور مچایا کہ تم لوگ چور اُچکے ہو تو باوردی پولیس ملازمین سامنے ہوئے اور وہ بضد رہے کہ دروازہ کھولا جائے جس پر میرے اہلخانہ نے دروازہ کھولنے سے انکار کیا اور وہ واپس چلے گئے، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ میرے گھر کے باہر میرے نام کی پلیٹ موجود ہے جس پر درج ہے کہ یہ پوٹھوہار پریس کلب کے سابق ایڈیشنل سیکرٹری کا گھر ہے،
شاید انہوں نے وہ نام کی پلیٹ بعد میں دیکھی اور وہ دیکھنے پر وہ لوٹ کر چلے گئے، اگلے دن جب پریس کلب کا وفد ایس ڈی پی او سرکل گوجرخان کے پاس گیا تو معلوم ہوا کہ یہ غیرقانونی چھاپہ یا ریڈ مذہبی جماعت ٹی ایل پی کی آڑ میں مارا گیا ہے، وفد نے ایس ڈی پی او کو بتایا کہ ہمارے صحافی بھائی کا تو دور دور تک اس جماعت سے تعلق نہیں، اسکا تعلق منہاج القرآن اور عوامی تحریک سے تھا لیکن اس نے بہت پہلے ان کے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اب وہ کافی عرصہ سے صرف صحافتی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے، جس پر ایس ڈی پی او نے یہ بطور خاص ذکر کیا کہ مجھے علم نہیں تھا کہ وہ صحافی ہے ورنہ میں وہاں بندے نہ بھیجتا اور جب مجھے رات کو ریڈ کرنے والی ٹیم نے وہیں سے بتایا کہ یہاں گھر کے باہر صحافی کے نام کی پلیٹ لگی ہے تو میں نے انکو واپس بلوا لیا تھا۔۔ اندازہ کریں کہ سرکل کے انچارج سب ڈویژنل پولیس آفیسر اسی شہر میں صحافت کرنے والے صحافی کے بارے میں لاعلم نکلے یا پھر لاعلم رکھے گئے کیونکہ انکے دفتر کا ہر فرد مجھے اچھی طرح جانتا ہے، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سوشل میڈیا کی جن پوسٹس کو میرے ساتھ جوڑ کر میرا تعلق مذہبی جماعت سے جوڑنے کی کوشش ہوئی اس جیسی کئی پوسٹس اور اس سے زیادہ تنقید پورے ملک کے صحافیوں نے حکومت اور پولیس پر کی لیکن کہیں بھی کوئی ایسا کیس رپورٹ نہیں ہوا کہ صحافی کے گھر یا دفتر پولیس پہنچی ہو یا کسی کے خلاف ان سوشل میڈیا پوسٹس کو بنیاد بنا کر کوئی مقدمہ درج ہوا ہو۔۔۔
یہاں سوالات یہ جنم لیتے ہیں کہ میرے گھر غیرقانونی طور پر مذہبی جماعت کی آڑ میں ریڈ کیوں کیا گیا؟؟ ریڈ کرنے والوں کو میری صحافتی سرگرمیوں سے لاعلم رکھا گیا؟؟ ریڈ کے لیے ٹیم بھیجنے والے سربراہی کرنے والے افسر کو لاعلم کیوں رکھا گیا؟؟ کیا انکا ماتحت عملہ اس کام میں ملوث ہے؟؟ کیا اسی طرح جرائم پیشہ عناصر کی بابت بھی انکا ماتحت عملہ اور تھانہ گوجرخان کا ڈی ایف سی ان کو لاعلم رکھتا ہے؟؟ کیا مقدمات اور انکی تفتیش کی بابت بھی انکو لاعلم رکھا جاتا ہے؟؟ سرکل کے سربراہ کی ایسی لاعلمی بہت سارے سوالات کو جنم دیتی ہے۔۔۔ جس بابت سرکل کے ذمہ دار کو سوچنا چاہیے اور اعلیٰ افسران کو اس چیز کا نوٹس لینا چاہیے۔۔
جب میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تو اس وقت ملکی حالات ایسے تھے جن کے پیش نظر پھر پریس کلب کے ممبران نے مجھے یہ مشورہ دیا کہ اس معاملے کو ہوا نہ دی جائے چونکہ ایس ڈی پی او سرکل نے ہی لاعلمی کا اظہار کر دیا تھا اور یہ انکی جانب سے غلطی کا اعتراف ہی تھا۔۔۔۔
اس واقعے کے بعد سے میں مسلسل اس چیز کو ٹریس کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہوں کہ میرے متعلق ایس ڈی پی او سرکل گوجرخان کو اندھیرے میں کس نے رکھا اور یہ سارا پلان کیوں ترتیب دیا گیا تو اس بابت بہت سارے پہلووں کا بغور جائزہ لے چکا ہوں جن میں سرفہرست پہلو مجھے مقامی پولیس کی خراب کارکردگی اور سابق ایس ایچ او کی سیاسی سماجی سرگرمیوں پر تنقید کرنا نظر آیا۔۔ بہرحال مزید پہلووں پہ بھی میری تحقیق جاری ہے اور منطقی انجام تک پہنچنے پر آئندہ ڈائری میں اس بابت میں تفصیل سے وجوہات کا ذکر کروں گا تاہم چلتے چلتے پولیس افسران کو مشورہ ہے کہ اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیریں۔۔ آپکو آپکے ماتحت شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہی غلط گائیڈ کرتے ہیں۔۔ ہمارا کام تو اچھے کو اچھا کہنا اور برے کو برا کہنا ہے وہ ہم کرتے رہیں گے۔۔۔ والسلام