آصف شاہ
2013 ء مارچ کی 11تاریخ تھی اور موسم قدرے گرم تھا صبح کے لگ بھگ ساڑھے آٹھ بجے تھے میں جب پندی پوسٹ کے آفس پہنچا میرا تعلق صحافت سے تھا لیکن فیلڈ کا تجربہ نہ تھا اور اسی بنا پر سانس پھولا ہوا تھادروازے کے کالے رنگ کے شیشوں پر برے لفظوں میں صحافت برائے خدمت کے الفاظ کنندہ تھے میں نے دروازہ کھٹکٹایا تو یس کا جواب آیا زور سے دروازے
کو کھولااور اندر ایک ہستی موجود تھی جس نے دونوں ٹانگیں دوسری کرسی پر رکھی تھی اور لیب ٹاپ پر کچھ تحریر کیا جا رہا تھا جی کہ کر مخاطب کیا گیا میں نے اپنا مدعا بیان کیا اور گزشتہ روز کے ٹیلی فون کا زکر کیا اور کہا کہ مجھے صحافت کا شوق ہے اسی اثناء میں ایک صاحب پانی کا ایک گلاس لے آئے میں نے پانی کا گلاس ایک ہی سانس میں ختم کیا اور کہا کہ آپ کے اخبار کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہو ں انہوں نے تجربہ پوچھا تو میں نے اپنی گزارشات ان کے سامنے رکھی انہوں نے لیٹے لیٹے ایک سفید کاغذ اور پنسل میرے طرف کیا اور کہا کہ روات میں بازار کے حوالہ سے کچھ خبر بناو میں نے ڈیڈھ لائن لکھی اور انہوں نے کاغذ اپنی طرف کر لیا ایک دفعہ میری طرف دیکھا اور پھر میری تحریر کو ہلکی سی مسکراہٹ سے گڈ کہا اور پھر ہلکا پھلکا انٹرویو کیا اورکہا کہ کل سے آجانااور پتہ چلا کہ یہ عبدالخطیب چوہدری ہیں اورپھرمیری ذندگی میں ایک ایسا موڑ آیا جس سے میں نے اپنی زندگی کو صحافت سے وابسطہ کرلیا اگلے چند دنوں خیر سے گزرے پھر ایک دن گیا تو ایک اور ٹیم موجود تھی تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ یہ ملک ظفر صاحب اور ان کے ساتھ جاوید اقبال بٹ تھے وہ دونوں ہستیاں اب اس دنیا میں موجود نہیں ان محترم ہستیوں سے میری طویل بات چیت ہوئی اورانہوں نے میرے ساتھ ایک دوستانہ رویہ رکھا انہی دنوں جنرل الیکشن کی انتخابی مہم زروں پر تھی اور پنڈی پوسٹ میں آنے والی سیاسی شخصیات سے فردا فردا ملاقاتیں بھی ہوتی تھی اور اسی طرح جلسے جلوسوں نے زندگی کو ایسا مصروف کیا پتہ نہ چلا کہ کب الیکشن ختم ہو گے اسی سیاسی گہما گہمی میں شہباز رشید چوہدری ،چوہدری جبار،چوہدری اشفاق ،سردار بشارت،ابراہیم بھائی یہ سب وہ لوگ تھے جو میر کارواں تھے اور میں جب ملا تو اس قافلے میں شامل ہو گیا ان تما م دوستوں نے ہر طرح کی رہنمائی اور بالخصوص استاد محترم عبدالخطیب چوہدری نے میری ہر لمحہ رہنمائی کی اور اس دنیا کے اتار چڑھاو کو سمجھایا اور ابھی تک اس فریضہ کو نبھا رہے ہیں اسی دوران اسد حیدری اور مرحوم راجہ رمضا ن راجہ طاہر سید ال عمران راجہ طیب اور بہت سے دوستوں سے ملاقات ہوئی انہوں نے ہر لمحہ میرا ساتھ دیا اور آج تک دے رہے ہیں اسی دوران کچھ دوست ہم سے بچھڑ بھی گے لیکن پنڈی پوسٹ جب تک موجود ہے نہ وہ جانے والے بھول سکتے ہی اور نہ میں پنڈی پوسٹ کو اس نے جو میری زندگی میں اپنا ایک رنگ شامل کیا ہے جو میرے ساتھ انشاء اللہ تمام زندگی قائم رہے گا اور دعا ہے کہ قائم رہے اور وہ دوست جنہوں نے میری ہر طرح سے سپورٹ کی اور کر رہے ہیں اور بالخصوص استاد محترم خطیب چوہدری اور ساری ٹیم کو اپنی حفظ امان میں رکھے آج پنڈی پوسٹ اپنی پانچویں سالگرم منا رہا ہے اور میری دعا ہے کہہ ہم رہے یا نہ رہیں پنڈی پوسٹ اللہ کے کرم سے ایسے ہی پھلتا پھولتا رہے اور دن دگنی رات چگنی ترقی کرے{jcomments on}