213

پنجاب ایگزامنیشن کمیشن کے زیر انتظام امتحانات

مبین مرزا
ہر سال پنجاب ایگزامنیشن کمیشن کے امتحانات کے دوران گورنمنٹ اور پرائیویٹ سیکٹرز کے بچوں کے والدین اور اساتذہ کے طر ف سے لا تعداد خدشات و تحفظات کا ذکر سننے کو ملتا ہے اور جب ان امتحانات کا نتیجہ سامنے آتا ہے تو ان خدشات و تحفظات پر یقین کا ثبوت بھی سامنے آ جاتا ہے جب وہ بچے بھی اس امتحان میں پاس قرار پاتے ہیں جنہوں نے سرے سے اس امتحان میں شرکت ہی نہیں کی ہوتی۔
لیکن بجائے اس کے کہ میں صرف ایسی غلطیوں کا ہی ذکر کروں کہ جو کسی بھی بہتر سے بہتر معاشرے میں بھی سہواً ہو سکتی ہیں کیوں نہ پنجاب ایگزامنیشن کمیشن کے پورے سیٹ اَپ کا ایک مختصر سا خاکہ آپ کے سامنے پیش کر دوں تاکہ قارئین کو اس نظام کے تحت منعقدہ امتحانات کی افادیت و اہمیت یا عدم افادیت و اہمیت سے کسی حد تک آگاہی ہو جائے تاکہ ہمارے صوبے کے سیاسی و تعلیمی اہل علم و شعور کو اس نظام کے جاری رکھنے یا نہ جاری رکھنے کے بارے میں کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے میں کچھ مدد مل سکے۔ صوبہ پنجاب میں دو طرح کے تعلیمی ادارے اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔ سرکاری و نجی تعلیمی ادارے یہ بات تو ہر ذی شعور شخص جانتا ہے کہ ان دونوں سیکٹرز میں کس کس قسم کے والدین کے بچے تعلیم پاتے ہیں ۔ اوّل الذکر سیکٹر میں ایسے بچے ہوتے ہیں کہ جنکے والدین اس قابل نہیں ہوتے کہ کسی پرائیویٹ تعلیمی ادارے کی سینکڑوں یا ہزاروں میں فیس ادا کرنے کے علاوہ دیگر آئے دن کے اخراجات کو برداشت کر سکیں ،اس قسم کے والدین میں مزدور، کسان، پھیری والے،مفلوک الحال سرکاری ملازمین کے علاوہ کچھ سفید پوش طبقہ کے لوگوں کے بچے شامل ہوتے ہیں۔ جبکہ دوسری قسم کے اداروں میں اس کے برعکس ایسے والدین کے بچے ہوتے ہیں جو ان سب اخراجات کو برداشت کرنے کے علاوہ گھر پر بچوں کو ہوم ورک کرانے کے لئے ٹیوٹرز کو بھی ہائیر کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔ اس طبقاتی تعلیمی تفاوت کو دور کرنے کے لئے کسی درد مندَ دور میں کسی درد مند کی مخلصانہ سوچ پنجاب ایگزامنیشن کمیشن کی بنیاد کا محرک بنی تاکہ بچے بے شک جدا جدا سیکٹرز میں اپنی اپنی طبقاتی تقسیم کے مطابق ہی تعلیم حاصل کریں ۔مگر امتحانی نظام ایسا ہو کہ امیر غریب کے بچے ایک جیسے ہی ماحول میں برابر بیٹھ کر ایک ہی معیارکا پیپر حل کریں اور مارکنگ کا نظام بھی ایسا ہو کہ رزلٹ یہ نہ بتائے کہ پرچہ دینے والا بچہ کتنا امیر ہے بلکہ رزلٹ یہ بتائے کہ بچہ کتنا ذہین ہے۔ اسکے علاوہ رزلٹ اس بات کی بھی رہنمائی کرے کہ اگرکسی سوال میں بچہ کسی غلط آپشن کو
Tikکر رہا ہے تو کیااس کی وجہ نصاب کا بوجھل ہونا ہے ؟ ٹیچر کا کمزور طریقہ تدریس ہے؟ یا کہ بچہ خود واقعتا تعلیم میں کمزور ہے؟ پنجاب ایگزامنیشن کمیشن کے مقاصد کی اولین ترجیح پورے صوبے میں یکساں تعلیمی نصاب ہے۔ اور اسی مقصد کے حصول کے لئے 2005ء سے پانچویں اور آٹھویں کے امتحانات(PEC) کے ذمے ہے،جو کہ تمام سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے بچوں کے لئے لازمی ہے۔
گر چہ ان امتحانات کے ابتدائی سالوں میں جب یہ ایک بالکل نیا امتحانی نظام ایک پرانے اور فرسودہ نظام میں اپنی جگہ بنا رہا تھا، پرائیویٹ سیکٹر نے پبلک سیکڑ کے شانہ بشانہ آنے سے بچنے کے لئے رٹ پٹیشن بھی دائر کر دی تھی کہ اس سیکٹر کو اس کی کارکردگی ماپنے کے پیمانے سے دور رکھا جائے اور اس کے بچوں کو غربا کے بچوں کے پہلو بہ پہلو بیٹھ کر ایک ہی معیار کا پرچہ دینے پر مجبور نہ کیا جائے۔ مگران کی اس کوشش پر سوائے اُسی سال کے استثنا کے جس میں انھوں نے عدالتِ عالیہ سے رجوع کیااس کا فیصلہ حکومت وقت میں حق میں کر کے پرائیوٹ سیکٹر کے استثناء کے مطالبے کو ہمیشہ کیلئے خاتمہ کر دیا۔ اب پرائیویٹ سیکٹر کے بچے بھی قانونی طور پر یہ امتحان دینے کے پابند ہیں۔ پنجاب ایگزامنیشن کمیشن کا ایک اور اہم مقصد دونوں سیکٹرز کے اساتذہ کی تدریس کے جانچ اور رٹا ازم کا بتدریج خاتمہ ہے، اس مقصد کے حصول کے لئے جدید تکنیکی بنیادوں پر ماہرین تعلیم سے سولو ٹیکسانومی(SOLO TAXSONOMY BASED) پیپرز تیار کروائے جاتے ہیں اس ٹیکسانومی کے تحت ساٹھ فیصد سوالات کثیر الانتخابی ہوتے ہیں جو اس کمپیوٹر ایج کے بچوں کے اندر رٹا ازم کی بجائےConceptual تدریس کی ترویج کی طرف لے کے جاتے ہیں اور باقی چالیس فیصد سوالات اسی پہلے سے مروج بلوم ٹیکسانومی (BLOOM TAXSONOMY) کے تحت دئیے جاتے ہیں۔ سولو ٹیکسانومی کے تحت دئیے جانے والے سوالات کے جوابات طلبہء مخصوص کمپیوٹرائزڈ شیٹ پر دیتے ہیں جسکو کمپےؤٹر چیک کر کے نمبر لگاتا ہے۔ سولات اتنے ٹیکنیکل انداز میں ہوتے ہیں کہ اگر ایک اوسط درجے کا بچہ کسی بیرونی مدد یا تُک بندی کی مدد سے کچھ مشکل جوابات بھی Tikکر دئے تو کمپےؤٹر اس کے حاصل کردہ نمبروں کو فارمولے کے تحت کم کر دیتا ہے اور اگر ایک نہایت فطین بچہ کسی ٖغلط فہمی یا کسی اور وجہ سے کسی نارمل سوال کو غلط بھی کر دے تو کمپیوٹر اس کے نمبر بڑھا دیتا ہے۔ اس کے علاوہ کمپیوٹر پورے پنجاب کے پیپر دینے والے بچوں کی اصل تعداد سامنے لے آتا ہے کہ کس سوال کو کتنے بچوں نے ٹِک کیا اور کتنوں نے قریب ترین آپشن کو ٹک کیا اور کتنوں نے صریحاً غلط آپشن کو ٹک کیا اس طرح کے اعدادو شمار کے حصول کے بعد نصاب کے اندر کمی بیشی کے ساتھ ساتھ اساتذہ کو در پیش تدریسی مسائل کے حل کے لئے ممکنہ تربیتی ٹریننگ کی سفارشات ڈائریکٹوریٹ آف سٹاف ڈویلپمنٹ کے سرکاری ٹریننگ ونگ تک پہنچائی دیجاتی ہیں۔
ابھی تک تواس ادارہ (PEC) نے پانچویں اور آٹھویں کے امتحانات کو اپنے زیر انتظام لیا ہے جبکہ دوسرے مرحلے میں تمام آٹھوں ڈویژن کے تعلیمی بورڈز کو اس کے زیر نگرانی لانا ہے تا کہ میڑک کے طلبہ کا پیپر بھی پورے پنجاب میں ایک ہی معیار کا ہو ۔تا کہ مختلف ریجن کے ذہین طلبہ کی حق تلفی کا خاتمہ کیا جا سکے۔ وضاحت کے لئے ایک چھوٹی سی مثال پیش کروں گا فرض کریں کے پنڈی بورڈ میں دو
تین اہم مضامین کا پیپر ممتحن کچھ سخت بنا دیتا ہے ،جس کے نتیجے میں اس ریجن کے فطین بچے بھی 70%تا 75% نمبر لے پاتے ہیں جبکہ ایک دوسرے ڈویژن کے بورڈ کے تین اہم مضامین کے پیپر ممتحن کچھ آسان بنا دیتا ہے تو اس کے نتیجے میں اس ریجن کے فطین بچے تو لازماً 90% تا 95% نمبر لیں گے ہی جبکہ عام ذہن کے بچے بھی 75% تا 80% لے لیں گے ۔ اس طرح کسی بھی اگلے مرحلے کے ادارے میں اول الذکر بورڈ کے فطین بچے بھی دوسرے بورڈ کے عام ذہن کے بچوں سے میرٹ میں پیچھے رہ جائیں گے۔ اس لئے پورے پنجاب میں میٹرک اور انٹر کا ایک لیول کا پیپر ذہین بچوں کی اس وقت رائج امتحانی سسٹم میں پیدا ہونے والی حق تلفی کے ازالے کی مخلصانہ کوشش ہے۔ مضمون نگار 32 سال سے شعبہ تعلیم سے وابسطہ ہیں۔ نہایت عمدہ خطاط، اعلی مصور، اچھے شاعر، پر اثر مقرر، انقلابی منتظم اور ہر دل عزیز ٹیچر ٹرینر ہیں ان کا زیاہ تر موضوع معاشرتی رویے ہیں، محکمہ تعلیم راولپنڈی میں بطور ماہر تعلیم( Pedagogy Expert) خدمات سر انجام دے رہے ہیں 0335-5631610

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں