85

پر امن کلرسیداں جرائم گاہ میں تبدیل

تحریر چوھدری محمد اشفاق
تحصیل کلرسیداں کبھی بہت زیادہ امن والی جہگہ تصور کی جاتی تھی لیکن پچھلے ایک دو سالوں سے حالت و واقعات بلکل تبدیل ہو کر رہ گئے ہیں اور اب یہ تحصیل جرائم پیشہ افراد کی اماج گاہ میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے آئے روز قتل ڈکیتیاں،چوریاں ہو رہی ہیں عوام خوف و ہراس میں مبتلا ہو چکے ہیں قتل کی واردات تو اب ایک معمول بن چکا ہے زیادہ تر قتل غیرت کے نام پر ہو رہے ہیں جس کی واضح مثال گزشتہ ہفتہ کو کمبیلی اور مک کی درمیانی ڈھوک کشمیریاں میں غیرت ے نام پر ایک ہی گھر کے تین اور ایک ثوبیہ نامی خاتون کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا ہے قتل ہونے والی اس عورت کے سات بچے بھی ہیں صرف وہ ایک اکیلی عورت نہیں بلکہ اس کے بچے بھی اب دوسروں کے محتاج ہو کر رہ گئے ہیں ان کو کون سنبھالے گا یہ سب کچھ دور جاہلیت کی یاد تازہ کر رہا ہے قتل، لڑائی جھگڑوں کی سب سے بڑی وجہ عقل اور سمجھ کا فقدان ہے غیرت کے نام پر جتنے بھی قتل ہوتے ہیں ان کے پیچھے باقاعدہ تربیت کے ہاتھ کارفرما ہوتے ہیں یہ تربیت گھر کے اندر سے ملتی ہے گھروں کی ساسیں اور نند،دیورانی،اور جٹھانیاں اس کی بڑی وجہ بنتی ہیں شادی سے پہلے لڑکیاں ہر کسی کو بڑی اچھی لگتی ہیں لیکن جب ان ہی لڑکیوں کی شادی ہو جاتی ہیں وہ اپنے نئے گھر میں پہنچتی ہیں تو صرف چند ماہ میں ان میں دنیا جہان کے عیب نظر آنے لگتے ہیں پورا گھر ان کے تعاقب میں لگ جاتا ہے اور اسی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس لڑکی ساس اور گھر میں موجود دیگر خواتین اس لڑکی کے شوہر کے کان بھرنا شروع کر دیتی ہیں ہر کوئی اس کو اس کی بیوی کے بارے میں الگ الگ رپورٹ سناتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک دن اس کو بے دردی کے ساتھ موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے پوچھنے پر پتہ چلتا ہے کہ اس کے چال چلن خراب تھے جس وہ سے شوہر نے،بھائی نے اس کو مار ڈالا ہے نہ جانے ہمارا معاشرہ کیوں اس قدر بے حس ہوتا جا رہا ہے ہمیں اپنے آپ میں کوئی عیب نظر نہیں آتا ہے لیکن جب کسی دوسرے کی بیٹی شادی شدہ ہو کر ہمارے گھر میں آتی ہے تو تھوڑے ہی وقت میں وہ دنیا کی بری ترین عورت محسوس ہونے لگتی ہے یہ سب کچھ گندی سوچ کا نتیجہ ہوتا ہے جس وجہ سے صرف ایک گھر نہیں بلکہ پورا ایک خاندان تباہ و برباد ہو جاتا ہے کلرسیداں میں ڈکیتیاں اور چوریاں بھی بہت زیادہ ہو رہی ہیں سر عام شہریوں کو لوٹ لیا جاتا ہے جبکہ ان وارداتوں میں ملوث ملزمان بھی ٹریس کرنا پولیس کی دسترس سے باہر ہو چکا ہے پولیس کا کام اب صرف اتنا رہ گیا ہے کہ جھوٹی درخواست بازی کے ملزمان کو گھسیٹنابے شمار مقدمات ایسے ہیں جن کی ایف آئی آر بھی ہو چکی ہیں لیکن پولیس ملزمان پکڑنے میں ناکام ہے پولیس اگر چاہے تو وہ زمین کھود کر ملزمان پکڑ لیتی ہے لیکن ان وارداتوں میں ملوث ملزمان ٹریس نہ ہونا پولیس کے محکمے کے اعلی افسران کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں وارداتیں ختم یا کم نہ ہونے کے اسباب بھی پولیس کی اپنے فرائض سے غفلت برتنا ہے ان وارداتوں میں اضافے کی وجہ بھی پولیس ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ ڈکیتیوں چوریوں میں ملوث ملزمان پکڑے ہی نہیں جاتے ہیں اور اگر غلطی سے پولیس ان کو پکڑ بھی لے تو عدالتوں سے ان کو ریلیف مل جاتا ہے کل وہی ملزمان مدعی پارٹی کے سامنے آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں مدعی ایک دفعہ پھر خوف کا شکار ہو جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ مقدمات کی پیروی چھوڑ دیتے ہیں اور ملزمان بری الزمہ ہو جاتے ہیں ہماری پولیس ہمارا قانون ہمیں یہ درس دے رہا ہے کہ اگرآپ کے ساتھ کوئی واردات درپیش ہو جائے تو خاموشی کے ساتھ گھر میں بیٹھ جاؤ قانون آپ کی مدد کرنے سے قاصر ہے پولیس افسران کھلی کچہریاں لگاتے ہیں جن میں وہ اپنی چکنی چپڑی باتوں سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر واپس چلے جاتے ہیں تھانہ کلرسیداں پولیس اور پیٹرولنگ پولیس کے زہنوں میں نہ جانے یہ بات کہاں سے داخل ہو گئی ہے کہ کلرسیداں کے عوام کا مسئلہ ہیلمٹ پہننا یا نہ پہننا ہے کلرسیداں سے جرائم کا خاتمہ ان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ناکے لگا کر چوروں، ڈکیتوں کو گرفتار کریں عوام سے سب کچھ چھین کر بھاگنے والے ملزمان کو پکڑیں کلرسیداں کے علاقے کو دوبارہ سے پر امن بنانے میں اپنا کردار ادا کریں جو پولیس کی پہنچ سے بہت دور ہوتا جا رہا ہے کلرسیداں کی تاریخ میں کبھی بھی یہ بات سننے کو نہیں ملی ہے کلرسیداں پولیس نے ڈکیتی کر کے بھاگنے والے ملزمان کو ناکہ لگا کر پکڑ لیا ہے بس صرف اس طرح کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ پولیس نے ہیلمٹ نہ لگانے والے اور موٹر سائیکل کے کاغذات مکمل نہ ہونے پر پانچ نوجوانوں کو تھانے میں بند کر دیا ہے پویس نے خود کو بلکل محدود کر لیا ہے اس کی کارکردگی صرف تصویریں بنوانے تک محدود ہو چکی ہے کلرسیداں کے مقامی سیاستدانوں کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اب وقت خاموش رہنے کا نہیں ہے مقامی سیاسی قیادت اور انجمن تاجراں کو باہر نکلنا ہو گا اور پولیس کے اعلی افسران سے ملاقاتیں کر کے ان کو اپنی تحصیل کے حالات سے آگاہ کرنا ہو گا تا کہ ہماری پولیس غفلت کی نیند سے بیدار ہو سکے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں