
برصغیر پاک و ہند بنیادی طور پر بُت پرستوں کا معاشرہ تھا۔ اسی بُت پرستی نے اس خطے کے مسلمانوں میں شخصیت پرستی اور موروثی سیاست کو ترویج دی۔ قیام پاکستان کے بعد جمہوریت کے دعویدار اپنی اپنی سیاسی جماعتوں میں موروثیت کے علمبردار بن گئے سوائے جماعت اسلامی کے۔ جماعت اسلامی پاکستان کی واحد سیاسی جماعت ہے جس کے اندر موروثیت کی کوئی گنجائش نہیں۔ یونین کونسل کی سطح سے لے کر قومی سطح تک کے امیر کے انتخاب کے لیے باقاعدہ استصواب رائے ہوتا ہے۔مقتدر سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور دیگر کے حوالے سے پاکستانی عوام اب تیسری نسل کی غلامی کے لیے تیار ہورہی ہے۔ لگتا ہے سیاسی جماعتوں میں بانجھ پن ہے کہ ایک ہی خاندان کے افراد کے علاوہ ان کے پاس کوئی سیاسی بالغ ہے ہی نہیں جو پارٹی کی قیادت یا صدارت سنبھال سکے۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھیوں کی موجودگی میں بے نظیر بھٹو پارٹی کی قائد بنیں ان کے بعد آصف علی زرداری اور پھر بلاول زرداری بھٹو اسی طرح مسلم لیگ ن نوازشریف کے بعد مریم صفدر اور شہباز شریف کے بعد حمزہ شہباز۔ تحریک انصاف میں عمران خان کی حد تک تو معاملہ درست ہے کہ اس کا کوئی رشتہ دار پارٹی قیادت کا خواہش مند نہیں لیکن صف اول کی قیادت میں موروثیت موجود ہے شاہ محمود قریشی ہوں یا پرویز خٹک یا جہانگیر ترین سب نے اپنے بیٹوں کو بھی ممبران اسمبلی بنوایا۔
قابل فکر بات ہے کہ کیا ہماری دھرتی اتنی بانجھ ہوگئی ہے کہ وہ کوئی لیڈر پیدا نہیں کرسکتی؟ ہر بڑا خاندان یا بڑی شخصیت خود کو ہی محب وطن اور اقتدار کے حق دار سمجھتے ہیں۔ کاروبار کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی انہی کی اجارہ داری ہے۔ ان کی دیکھا دیکھی اسٹیبلشمنٹ نے بھی اپنا چلن بدل لیا ہے۔ انہیں اپنے کام کے علاوہ ہر کام آتا ہے۔
اعلیٰ قیادت کے اس چلن کو مقامی قیادت نے مشعل راہ سمجھتے ہوئے اس روش کو اپنایا۔ تحصیل گوجرخان میں پیپلز پارٹی کے سابق ایم این اے عبدالعزیز بھٹی (مرحوم) کے صاحبزادے راجہ شوکت عزیز بھٹی دو بار ممبر صوبائی اسمبلی رہے، 2018 ء کے انتخابات میں اپنے چھوٹے بھائی راجہ فیصل عزیز بھٹی کو صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑوایا اور ذرائع کے مطابق اب اپنے ایک اور چھوٹے بھائی راجہ احمد عزیز بھٹی بھی الیکشن لڑنے کے تیاری کررہے ہیں۔ راجہ جاوید اخلاص جب نائب ناظم و ناظم ضلع کونسل راولپنڈی تھے تو ان کے دونوں صاحبزادوں قاسم جاوید اور عاصم جاوید نے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا یہ الگ بات کہ دونوں مرتبہ انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سابق وزیر اعظم و موجودہ اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے بھی اپنے دو بیٹوں راجہ خرم پرویز کو صوبائی اسمبلی اور راجہ شارخ پرویز کو قومی اسمبلی کا الیکشن لڑوا چکے ہیں اور بدقسمتی سے دونوں کو ہی شکست ہوتی رہی ہے اور شنید ہے کہ وہ آمدہ قومی انتخابات میں بھی اپنے ساتھ دونوں بیٹوں کوبھی الیکشن لڑوانے کی تیاری کررہے ہیں۔تحریک انصاف تحصیل گوجرخان میں ابھی تک کوئی ایسے آثار یا شواہد نہیں ہیں کہ اس کے ممبران اسمبلی اپنی اولادوں یا رشتہ داروں کو انتخابات کے لیے تیار کر رہے ہیں۔
حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ یہ دعویدار بنیادی طور پر جاگیردارانہ سوچ رکھتے ہیں، سالہا سال سیاسی میدان یا اقتدار میں رہنے کے باوجود ان کا جی نہیں بھرا اور انہیں اپنے بیٹوں بھائیوں یا خاندان کے علاوہ کوئی عام آدمی سیاست میں قبول ہی نہیں۔ ان کی پارٹیاں ٹھنڈے ٹھار کمروں میں بیٹھ کرسیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے عام آدمی کے سیاسی و سماجی حقوق کی بات تو کرتی ہیں لیکن عام آدمی انہیں سیاست میں قبول نہیں ہے۔سیاست و قیادت پر براجمان یہ خاندان اپنے خاندان کے علاوہ کسی پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ تمام مقتدر سیاسی پارٹیاں اور ان کے نمائندے چاہے موجودہ ہوں یا سابقہ بلدیاتی اداروں کے انتخابات اور طلبہ یونین کی بحالی سے پہلو تہی کرتی ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں نچلی سطح سے ملک و قوم کو قیادت میسر آتی ہے جو قومی سطح کے موروثیت کے علمبرداروں کو قبول نہیں۔
دُکھ اس بات کا ہے کہ ہمارے عوام قوم کی بجائے ابھی تک ایک ہجوم ہی ہیں۔ ان کی سوچ ابھی گلی نالی اور تھانہ کچہری کے گرد ہی گھومتی ہے۔ کوئی ان سے گوجرخان ضلع کا سوال نہیں کرتا، کوئی ان سے پوٹھوہار یونیورسٹی کی بابت نہیں پوچھتا، عام آدمی کو ٹکٹ دینے کا مطالبہ نہیں کرتا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ سیاست دان اقتدار کے ساتھ ساتھ وسائل پر بھی قابض ہوگئے ہیں اور غریب غریب تر ہواو”ر میرا راجہ زندہ باد تیرا راجہ مردہ باد“کے لیے ہی رہ گیا ہے۔