آصف خورشید/کسی بھی علاقے کا معیار تعلیم وہاں کی بنیادی درس گاہوں کا مرہون منت ہوتا ہے علاقے کی بنیادی درس گاہیں جس قدر معیاری ہو ں گی وہاں اتنا ہی مہذب معاشرہ تشکیل پائے گا۔مگر بد قسمتی سے تحصیل کلر سیداں کی یونین کونسل منیاندہ کا مشرقی علاقہ یوں تو پورے کا پورا ہی بنیادی سہولیات کی عدم توجہی کا شکار ہے مگر یہاں کا گورنمنٹ پرائمری سکولانچھوہا نہ صرف بنیادی سہولیات سے محروم ہے بلکہ علاقے کا واحد سکول ہونے کے باوجود کوئی پرسان حال نہیں۔سکول تک جانے کے لیے کوئی باقاعدہ راستہ ہے ہی نہیں۔سکول کے بچے مختلف پگڈنڈیوں پر سے ہوتے ہوئے سکول تک پہنچتے ہیں۔خاص طور پر بارش کے موسم ان معصوم کلیوں کو سکول آنے کے لیے جس اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔باقاعدہ رستہ نہ ہونے کے باعث اکثر بچے کھیتو ں سے گزر کر آتے ہیں جس پر انہیں طرح طرح کی باتیں بھی سننے کو ملتی ہیں اور ساتھ والدین بھی اذیت کا شکار ہوتے ہیں۔اس سکول میں تقریباً 170کے قریب بچے زیر تعلیم ہیں۔جن میں اکثریت غریب خاندانون سے تعلق رکھتے ہیں۔سکول کی عمارت کی بات کی جائے تو پوراسکول چھے کمروں پر مشتمل ہے۔جن میں 3کمرے جو70کی دہائی میں تعمیر کیے گئے تھے۔انتہائی خستہ حا ل ہو چکے ہیں۔جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ،بوسیدہ دیواروں میں بڑی بڑی دراڑیں کسی خطرے سے کم نہیں۔ایک کمرہ اس قدر خستہ حال ہو چکا ہے کہ اس کی چھت اند ر کی طرف جھک چکی ہے۔زنگ آلود،ٹی۔آر (T-R)پرپڑی یہ کچی چھت کسی بھی وقت زمین بوس ہو سکتی ہے۔کسی ناخوش گوار واقعے سے بچنے کے لیے سکول انتظامیہ نے اس کمرے کو عارضی طور پر بند کر دیا ہے۔سٹاف روم اور آفس کے لیے تو پہلے ہی کلاس روم استعما ل ہوتے ہیں مگر اب ایک کلاس روم میں دو کلاسسز لگائی جا رہی ہیں جو نہ صرف تعلیمی اصولوں کے خلاف ہے بلکہ طلبہ کے مستقبل کے بھی منافی ہے۔ جگہ کم ہونے کے باعث آفس ورک،پیرنٹس میٹنگ حتیٰ کے سٹاف میٹنگ بھی کلاس رومز کے اندر ہی کی جاتی ہے۔یوں تو عمارت کا ایک حصہ ہی خستہ حال ہو چکا ہے جو کسی بھی وقت حادثے کا شکار ہو سکتا ہے۔حکومتی نمائندوں کے ساتھ ساتھ اگر علاقے کے مخیر لوگ توجہ دیں تو کم از کم ایک کلاس روم کی کمی کو پورا کیا جا سکتاہے۔یعنی اس خستہ حال چھت کوتبدیل کیا جا سکتا ہے۔تاکہ معصوم بچے بے خوف ہوکراپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔حکومت کے ساتھ ساتھ اہل علاقہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے علاقائی سکول پر توجہ دیں تاکہ وہاں پر غریب کے بچے بھی معیاری تعلیم حاصل کر سکیں۔
355