پرائس کنٹرول کمیٹیاں فعال کی جائیں 141

پرائس کنٹرول کمیٹیاں فعال کی جائیں

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جب سے اقتدار میں آئی تو اسکو بحران در بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ایک بحران سے ابھی نکلتے نہیں تو سامنے کسی دوسری چیز کے غائب ہونے یا مہنگا ہونے کی خبر آجاتی ہے مگر گزشتہ دو اڑھائی سالوں میں جب سے کرونا وائرس کی وبا نے اپنے قدم پاکستان کی سرزمین پر رکھے ہیں تو یوں لگتا ہے وہ اپنے ساتھ مہنگائی کے نہ تھمنے والے طوفان کو لے کر آئی ہے اور یہ طوفان ایسا طوفان کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ اسکی رفتار کم ہونے کے بجائے زور پکڑتی جارہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ گھریلو اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کو تو جیسے پر لگ گئے ہیں کل تک جو چیز سو روپے کی میسر تھی آج وہ تین سے چار گنا مہنگی قیمت پر مل رہی ہے اس ساری صورتحال میں دوکانداروں نے بھی موقع کو غنیمت جانتے ہوئے قیمتوں میں خودساختہ اضافہ کر کے گھی، آٹا،دالیں، چینی سمیت ہر چیز مہنگے داموں فروخت کر دی ہیں عوام اتنی مہنگائی کو دیکھ کر سر پکڑ کے بیٹھ گئی ہے اب تو حکومت اور انتظامیہ کی ناقص حکمت عملی کے سبب جیسے اشیاء ضروریہ کی چیزوں کے بحران نے مستقل طور پر اپنے پنجے گھاڑ لیے ہیں مارکیٹ میں آٹا کا بحران چل رہا مارکیٹ میں آٹے کی قیمت 1300 سو سے 1500 روپے کا 20 کلو والا تھیلا مل رہا ہے اور یہ بحران تب سے بے قابو ہے اور عوام پر بجلیاں گرا رہا ہے جب ہمارے ہاں گندم کی کٹائی ہوئی تھی یعنی جب گندم وافر مقدار میں ہونی چاہیے تب سے ہی آٹا مارکیٹ میں نایاب ہوچکا تھا جو آج تک جاری ہے اسی طرح اب جب چینی کی کرشنگ کا سیزن ہے اس وقت ملک بھر میں 120 روپے سے 150 روپے کلو تک چینی مارکیٹ میں فروخت ہورہی ہے اسی طرح سے باقی تمام روزہ مرہ زندگی میں استعمال ہونے والی اشیاء کی بھی حالت ہے حالانکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اس کے باوجود یہاں آٹا، چینی،دالیں وافر مقدار میں اور سستی ملنی چاہیے لیکن یہاں سب الٹا ہورہا ہے اس حکومت کا ایک احسن اقدام تھا جو تعریف کے (باقی صفحہ3نمبر07)
قابل تھا وہ بھی اس مہنگائی کی نظر ہوگیا وہ تھا پرائس کنٹرول کمیٹیاں علاقائی سطح پر بنانا یعنی ہر علاقے کی اپنی پرائس کنٹرول کمیٹی جو اس علاقے کی سطح پر قیمتوں کو کنٹرول کرے گی جس سے یقینی طور پر پرائس پر قابو رکھا جاسکتا ہے کیونکہ ہر کمیٹی اپنے علاقے کی پرائس کو باآسانی کنٹرول کرسکتی ہے مگر اس حالیہ مہنگائی کی لہر اوردوکانداروں کے خودساختہ ریٹ دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ یہ کمیٹیاں بھی کئی گھروں میں قرنطینہ کی نظر ہوئی ہیں اور اوپر سے سونے پر سہاگہ انتظامیہ نے بھی چپ کا روزہ رکھ لیا ہے حکومت نے عوام کو مکمل طور پر مہنگائی کے بوجھ تلے روند کر اس کے ہی رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے اور دن بدن بڑھتی مہنگائی کو دیکھ کر یہی لگتا کہ حکومت مکمل طور پر مہنگائی کو قابو کرنے میں ناکام ہوچکی ہے اب وزیراعظم کو چاہئیے کہ وہ اپنے خوشامدی وزراء کے چنگل سے نکل کر اس مہنگائی کے بوجھ تلے دبی عوام پر ترس کھائیں اور اس سارے معاملے میں ضلعی انتظامیہ اور پرائس کنٹرول کمیٹیاں جو خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے انکو فعال بنائیں تاکہ کم سے کم جو خود ساختہ مہنگائی دوکانداروں اور ہول سیل مارکیٹ میں کی گئی ہے اس پر کسی طرح سے قابو پایا جاسکے اور لوگوں کو روزہ مرہ استعمال کی اشیاء کچھ سستے داموں میسر آسکیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں