پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جب سے اقتدار میں آئی تو اسکو بحران در بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ایک بحران سے ابھی نکلتے نہیں تو سامنے کسی دوسری چیز کے غائب ہونے یا مہنگا ہونے کی خبر آجاتی ہے مگر گزشتہ دو اڑھائی سالوں میں جب سے کرونا وائرس کی وبا نے اپنے قدم پاکستان کی سرزمین پر رکھے ہیں تو یوں لگتا ہے وہ اپنے ساتھ مہنگائی کے نہ تھمنے والے طوفان کو لے کر آئی ہے اور یہ طوفان ایسا طوفان کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ اسکی رفتار کم ہونے کے بجائے زور پکڑتی جارہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ گھریلو اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کو تو جیسے پر لگ گئے ہیں کل تک جو چیز سو روپے کی میسر تھی آج وہ تین سے چار گنا مہنگی قیمت پر مل رہی ہے اس ساری صورتحال میں دوکانداروں نے بھی موقع کو غنیمت جانتے ہوئے قیمتوں میں خودساختہ اضافہ کر کے گھی، آٹا،دالیں، چینی سمیت ہر چیز مہنگے داموں فروخت کر دی ہیں عوام اتنی مہنگائی کو دیکھ کر سر پکڑ کے بیٹھ گئی ہے اب تو حکومت اور انتظامیہ کی ناقص حکمت عملی کے سبب جیسے اشیاء ضروریہ کی چیزوں کے بحران نے مستقل طور پر اپنے پنجے گھاڑ لیے ہیں مارکیٹ میں آٹا کا بحران چل رہا مارکیٹ میں آٹے کی قیمت 1300 سو سے 1500 روپے کا 20 کلو والا تھیلا مل رہا ہے اور یہ بحران تب سے بے قابو ہے اور عوام پر بجلیاں گرا رہا ہے جب ہمارے ہاں گندم کی کٹائی ہوئی تھی یعنی جب گندم وافر مقدار میں ہونی چاہیے تب سے ہی آٹا مارکیٹ میں نایاب ہوچکا تھا جو آج تک جاری ہے اسی طرح اب جب چینی کی کرشنگ کا سیزن ہے اس وقت ملک بھر میں 120 روپے سے 150 روپے کلو تک چینی مارکیٹ میں فروخت ہورہی ہے اسی طرح سے باقی تمام روزہ مرہ زندگی میں استعمال ہونے والی اشیاء کی بھی حالت ہے حالانکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اس کے باوجود یہاں آٹا، چینی،دالیں وافر مقدار میں اور سستی ملنی چاہیے لیکن یہاں سب الٹا ہورہا ہے اس حکومت کا ایک احسن اقدام تھا جو تعریف کے (باقی صفحہ3نمبر07)
قابل تھا وہ بھی اس مہنگائی کی نظر ہوگیا وہ تھا پرائس کنٹرول کمیٹیاں علاقائی سطح پر بنانا یعنی ہر علاقے کی اپنی پرائس کنٹرول کمیٹی جو اس علاقے کی سطح پر قیمتوں کو کنٹرول کرے گی جس سے یقینی طور پر پرائس پر قابو رکھا جاسکتا ہے کیونکہ ہر کمیٹی اپنے علاقے کی پرائس کو باآسانی کنٹرول کرسکتی ہے مگر اس حالیہ مہنگائی کی لہر اوردوکانداروں کے خودساختہ ریٹ دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ یہ کمیٹیاں بھی کئی گھروں میں قرنطینہ کی نظر ہوئی ہیں اور اوپر سے سونے پر سہاگہ انتظامیہ نے بھی چپ کا روزہ رکھ لیا ہے حکومت نے عوام کو مکمل طور پر مہنگائی کے بوجھ تلے روند کر اس کے ہی رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے اور دن بدن بڑھتی مہنگائی کو دیکھ کر یہی لگتا کہ حکومت مکمل طور پر مہنگائی کو قابو کرنے میں ناکام ہوچکی ہے اب وزیراعظم کو چاہئیے کہ وہ اپنے خوشامدی وزراء کے چنگل سے نکل کر اس مہنگائی کے بوجھ تلے دبی عوام پر ترس کھائیں اور اس سارے معاملے میں ضلعی انتظامیہ اور پرائس کنٹرول کمیٹیاں جو خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے انکو فعال بنائیں تاکہ کم سے کم جو خود ساختہ مہنگائی دوکانداروں اور ہول سیل مارکیٹ میں کی گئی ہے اس پر کسی طرح سے قابو پایا جاسکے اور لوگوں کو روزہ مرہ استعمال کی اشیاء کچھ سستے داموں میسر آسکیں۔
