195

پتلی تماشا –عوام بنام عوام

لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلَىٰ أَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (القرآن)

درحقیقت اُن کے اکثر لوگوں پر ہمارا فرمان (سچ) ثابت ہو چکا ہے سو وہ ایمان نہیں لائیں

دنیا کا سب سے بڑا مذہب عیسائیت ہے ۔ عیسائی حضرات کہتے ہیں ہم حق پر ہیں باقی سب غلط ہیں ۔ ہندو کہتے ہیں ہم سیدھے رستےپہ  ہیں باقی اپنا رستہ درست کریں۔ یہودیت کے ماننےوالے اس پہ مصرہیں کہ ہم بجا ہیں باقی اپنا قبلہ درست کر لیں ۔کہیں پیر حق خطیب کے متوالے اسی کے عشق میں مدغم ہیں  تو کہیں کوئی متولی گدی نشین اپنے اپنے اغرا ض و مقاصد کیلئے بر سر پیکار ہیں۔

وطن عزیز میں ہر شخص نے  اپنا اپنا  سیاسی  قبلہ بنایا ہوا ہے اور اسی میں محو خواب ہے۔ بھلا ہو سوشل میڈیا کا جس نے جہاں کئی جھوٹے اور ڈھکے چھپے کرداروں کو بے نقاب کیا تو کہیں کسی کی لگی بندھی  پہ لات مار دی۔شیکپئر نے کہا تھا کہ یہ دنیا ایک سرکس ہے ۔ یہاں ہر کوئی اپنے اپنے حصے کا کھیل کھیلتا ہے اور رخصت ہو جاتا ہے۔

اس  سرکس کے میدان میں ایک غریب شخص ایسا ہوتا ہے جو پیٹ کا ایندھن بجھانے کے چکر میں کبھی کسی در کی خاک چھانتا ہے تو کبھی کسی  کی۔ اپنی دو وقت کی  روزی  روٹی کے چکر میں وہ اپنے سر پہ خاک تک ڈال لیتا ہے۔ابھی کل ہی کی بات ہے کہ لانگ راج گاوں تھانہ کنڈیارو کا رہائشی طیب  اپنی بیمار بیٹی کو غربت کی وجہ سے زندہ درگور کر دیتا ہے ۔ اسلام سے پہلے کہ واقعات میں بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے جیسے واقعات پڑھنے کے ساتھ ساتھ سنتے بھی آئے ہیں۔ مگر اسلام کا نور پھوٹنے کے بعد یہ باتیں سننے کو ملتی ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا۔

ہونا تو یہ چاہے تھا کہ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق ؓ کے قول، اگر دریائے فرات کے کنارے کتا بھی پیاسا مرے تو اس کا جواب دہ میں ہوں بمثل حکمران طبقہ کو ذمہ داری لینی چاہے ۔ مگر کیا کیا جائے وطن عزیز میں شاید الٹی گنگا بہتی ہے۔داد دینی چاہے  حکمران طبقے کا جو ٖغریب کو دو وقت کی روٹی تو نہیں کھلا سکتے لیکن اربوں  ڈالر قر ضہ لے کر سینتالیس ڈگری سینٹی گریڈ میں تھری پیس سوٹ کے ساتھ ٹائی  لگا کربڑی بڑی گاڑیوں کے قافلوں کے ساتھ آج بھی تخت پہ جلوہ افروز رہتے ہیں۔اور عوام کو پتلیاں بنا کر آئے روز پتلی تماشے منعقد کرتے ہیں۔ اور سادہ لوح اشخاص ان کے بہکاوے میں آ جاتے ہیں۔ اور  قوم کو پاکستانی کی بجائےیوتھیا ، پٹواری اور جیالے میں تقسیم کر دیا ۔

  صد افسوس کہ ہم سبھی کچھ ہیں مگر ہم پاکستانی نہیں ہیں ۔ ہم اپنے ہاتھوں  ہی سے کسی حد تک خود ہی وطن عزیز کی بنیادیں کھودنے میں مصروف ہیں۔  ہم ان سیاسی پنڈتوں کے بہکاوے میں آ کرکبھی کہیں حملہ کرتے ہیں تو کبھی کہیں ۔اس دھینگا مشتی میں ہم نے اپنے ہی ہم وطنوں کے سر تک پھوڑے۔ہم پاکستانی بننے کی بجائے جماعتی وابستگی کو زیادہ اہمیت دینا شروع ہو گئے ۔ آج غریب کے گھر کا چولہا جلنا محال ہو چکا ، بجلی کا بل دیکھ کر غریب کی آنکھ سے آنسو نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔  وہ دو وقت کی روٹی کو پورا کرے یا بل ادا کرے۔ کہیں باپ  اپنے ہاتھوں سے  اپنی بچی کو زندہ درگور کر رہا تو کہیں ماں باپ اپنے جگر گوشوں کو اپنے ہی ہاتھوں موت کی نیند سلا رہے۔ کہیں گھر کا سربراہ غربت سے تنگ آکر خود کشی پہ مجبور ہے تو کہیں ماں اپنے بچوں کو بیچنے پہ۔

دعا گرفت میں ہے بد دعا گرفت میں ہے

کوئی تو بولو کہ خلق خدا گرفت میں ہے

بجائے گھٹنے کے بڑھنے لگا ہے استحصال

اناج پہلے سے تھا اب ہوا گرفت میں ہے

(فرحت عباس شاہ)

 مگر تف ہے حکمران طبقہ پر مجال ہے جواپنی عیاشیوں کو ختم کریں۔ میں جماعتی وابستگی (یوتھیا، جیالا اور پٹواری) والوں سے ایک عرض کرنا چاہتا ہوں ۔ آپ صرف چند لمحوں کیلئے پاکستانی بن جائیں آپ بھول جائیں کہ آپ کسی جماعت سے وابستہ ہیں آپ تھوڑی دیر کیلئے کسی بھی جماعت کا کارکن بننے سے کنارہ کشی اختیار کرلیں اور سوچیں ۔ کہ آپ تو ماچس کی ڈبیہ خریدنے پہ بھی ٹیکس دیتے ہیں ۔ آپ کے خون پسینے کی کمائی سے بجلی جو ملک میں ناپید ہےاسکا آپ بل تک ادا نہیں کر سکتے۔کیا  آپ جس سیاسی جماعت کے کارکن ہیں اس  سیاسی لیڈر  اور اس کے حواریوں نے بھی اس قرضے میں ڈوبے ملک کی خاطر اپنی عیاشیاں چھوڑ دیں۔

ذرا  سوچئے کمشنر سرگودھا کا گھر محض 104 کنال کا ہے جس کیلئے ۳۳ ملازم سیکیورٹی اور دیکھ بھال کےلئے نامزد ہیں۔ ایس ایس پی ساہیوال کا گھر محض 98 کنال اراضی پہ سمایا ہوا ہے۔ پنجاب پولیس کے سات ڈی آئی جیز اور 32ایس ایس پیز کی رہائش گاہیں محض 860 کنال پہ مشتمل ہیں ۔2ہزار 6 سو 6 کنالوں پہ محیط اسی طرح کے سرکاری افسران کی رہائش گاہیں جو صرف پنجاب میں  ہیں ان کی نگہداشت اور تزئین و آرائش پہ اربوں روپے سالانہ خرچ ہوتے ہیں۔ جبکہ  پاکستان میں 20ملین لوگ بے گھر ہیں۔ اور ٹوٹل آبادی کا 24 فیصد ان لوگوں پہ مشتمل ہے جن کو دو وقت کا کھانا میسر نہیں۔

اور یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق 22.8 فیصد بچے جن کی عمر پانچ سے سولہ سال کے درمیان ہے اسکول نہیں جاتے۔تو پھر  سیاسی کارکنوں اور وابستگیوں میں ٖغرق  منتشر عوام سے  یہ سوال ہیں کہ جس سیاسی جماعت کہ آپ سرگرم رکن ہیں یا جس جماعت سے آپ کی وابستگی ہے ان سے پوچھیں۔

کیا وہ ہزاروں سی سی  مرسیڈیز  بلٹ پروف گاڑیوں کو چھوڑ کر ایک عام سی گاڑی میں منتقل ہوگئے۔

کیا وہ آپ کی خاطر آسائشات سے مزین محلات جیسے سرکاری گھروں کو جن میں سینکڑوں باوردی نوکر ائیر کینڈیشنڈ ، مالی ، چپڑاسی ، خانسامے موجود ہیں ان کو چھوڑ کر پانچ دس مرلہ گھر پہ آگئے ہیں جبکہ ایک کمشنر کا گھر صرف 104کنال پہ مشتمل ہے۔

کیا وہ کنالوں محیط گورنر ہاوسز وزیر اعلیٰ ہاوسسز آپ کی خاطر چھوڑ کر اس ملک کے اخراجات کم کر رہے ہیں۔

کیا کسی نے کہا ملک قرضوں میں جکڑا ہے میں آ  ج سے سینکڑوں لیٹرڈیزل و  پیٹرول جو مفت لیتا ہوں نہیں لونگا۔

کیا کسی سرکاری وزیر نے کہا میرا ملک اس وقت مشکل کا شکار ہے میں اپنی لگژری سرکاری گاڑی استعمال  نہیں کرتا۔

کیا  انہوں نے کہا کہ ملک زوال پذیر ہو رہا لہذا آج سے سرکاری عشائے نہیں بلکہ گھر کا کھانا کھائیں گے۔

کیا کسی نے کہا آج سے ہم اکانومی کلاس کا ٹکٹ لیں گے ۔ مفت بیرون ممالک سرکاری دورے نہیں کریں گے۔

ایسا ہر گز نہیں ہوا اور قوی امید ہے کہ وہ ایسا کبھی کریں گے بھی نہیں ۔ تو پھر میں اور آپ آپس میں کیوں دست و گریباں ہیں ۔ میں اور آپ پاکستانی کیوں نہیں بن پا رہے۔ آپ تو اس مہنگائی کی چکی میں دھنستے چلے جائیں  سیاسی کھلاڑی عیاشیوں پہ عیاشیاں کرتے چلے جائیں ۔ وطن عزیز پہ مشکل حالات چل رہے ہیں لیکن آپ دو ارب سے زائد روپے خرچ کر کے سرکاری پنٖڈتوں کو لگژری گھر بنا کہ دیں    ہمارا ملک اس طرح کی عیاشیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔

لہذا ہمیں اب پاکستانی بننا ہو گا پاکستان ہے تو ہم ہیں ۔ اور حکمران جب عمر بن عبدالعزیز جیسے ہوں تو دنیا میں انکا نام بھی گونجتا ہے اور پھر زکوٰت لینے والے بھی نہیں ملتے۔ اور عوام محبت بھی کرتی عزت سے بھی نوازتی ہے۔مزید برآں حکمرانوں کے دلوں میں خوف بھی نہیں رہتا وہ عوام میں بلا خوف وخطر رہ سکتے ہیں ہمیں اب پتلی تماشے کا حصہ بننے سے گریزکرنا ہو گا ۔یہ ملک بڑی قربانیوں اور جدوجہد کے بعد حاصل ہو ا ہے۔’

پاکستان بننے کے بعد کابینہ کا پہلا اجلاس تھا اور قائداعظم بھی اجلاس میں موجود تھے ۔اے ڈی سی گل حسن نے قائداعظم سے پوچھا کہ سر اجلاس میں چائے پیش کی جائے یا کافی ؟ قائد نے چونک کر سر اٹھایا اور پوچھا کیا یہ گھروں سے چائے یا کافی پی کر نہیں آئے۔ اے ڈی سی گھبرا گئے۔ قائد اعظم نے کہا جس نے چائے یا کافی پینی ہے وہ گھر سے پی کہ آئے۔ قوم کا پیسہ قوم کے لئے ہے وزیروں کیلئے نہیں ۔ ایسا تھا ہمارا قائد اور ہمارا پاکستان۔                                                                                                            

اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ آمین

خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو                    (احمد ندیم قاسمی)

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں