301

پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان

پروفیسر محمد حسین /نواب زادہ لیاقت علی خان‘ قائداعظم محمد علی جناح کے ان رفقائے کار میں تھے جنھیں بانیان پاکستان کی صف اول میں شمار کیا جاتا ہے وہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے نواب زادہ لیاقت علی خان یکم اکتوبر 1895ء کو بھارتی ریاست ہریانہ کے ضلع کرنال میں پیدا ہوئے ان کے والد رستم علی خان خاندانی رؤسا میں شمار ہوتے تھے تین سو دیہات پر مشتمل ان کی جاگیر مشرقی پنجاب سے شروع ہو کر مظفر نگر پر ختم ہوتی تھی لیاقت علی خان نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے پولٹیکل سائنس اور قانون کی اسناد حاصل کیں 1919ء میں برٹش گورنمنٹ نے اسکالر شپ پر تعلیم حاصل کرنے کے لیے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں بھیجا جہاں انھوں نے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اپنے شعبے میں مہارت اور بہترین تعلیمی پس منظر کی بنیاد پر لیاقت علی خان کو بطور ایڈووکیٹ برطانوی عدالتوں میں قانون کی پریکٹس کا موقع 1923ء میں وہ بھارت واپس آئے اور برطانوی سامراج کے ہاتھوں مظالم کا شکار مسلمانوں کو انصاف فراہم کرنے کے لیے انھوں نے مقامی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا ابتداء میں وہ متحدہ ہندوستان کے قائل تھے کانگرس نے انھیں اپنے پلیٹ فارم سے جدوجہد کی پیشکش کی مگر جواہر لعل نہرو سے ملاقات کے بعد ان کے سیاسی نظریات یکسر تبدیل ہو گئے 1923ء میں انھوں نے قائداعظم کے نظریات اور جدوجہد سے متاثر ہو کر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی اور پھر مسلمانان بر صغیر کی آزادی اور ایک علیحدہ مملکت کے حصول کی جنگ میں وہ ہراول دستہ کے سپہ سالاروں میں شامل ہوئے وہ 1926ء میں مظفر نگر سے صوبائی قانون ساز کونسل کے رکن منتخب ہوئے یہ ان کی پارلیمانی کیرئیر کی ابتدا تھی اس دوران انھوں نے مسلم طلبہ میں آزادی کا شعور بیدار کرنے کے علاوہ متعدد مواقع پر ہندو مسلم فسادات روکنے میں بھی اپنا سیاسی اثرورسوخ بروئے کا ر لاتے رہے تحریک پاکستان کے دوران بلاشبہ لیاقت علی خان‘قائداعظم محمد علی جناح کے دست راست بن کر ایک قدم پر اپنے قائد کا مشن ان کی امنگوں کے مطابق آگے بڑھانے میں ممدو معاون کا کردار نبھاتے رہے قیام پاکستان کے بعد وہ نہ صرف پاکستان کے پہلے وزیراعظم بنے بلکہ خارجہ دفاع اور سرحدی علاقہ جات کی اہم ترین وزارتوں کے قلم دان بھی انھی کی ذمہ داری میں شامل تھے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قائداعظم‘ لیاقت علی خان کی صلاحیتوں پر کتنا بھروسہ کرتے تھے امریکہ اور سودیت یونین سپرپاورز میں انھیں بطوراتحادی کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا داخلی طور پر قیام پاکستان کے ابتدائی دنوں میں انھیں سوشلسٹ اور کمیونسٹ طبقوں کے علاوہ قوم پرست اور مذہبی سوچ کے حامل افراد کو بھی ساتھ لیکر چلنے کا مشکل مرحلہ درپیش تھا اگر چہ لیاقت علی خان روس اور امریکہ دونوں سے برابری کی سطح پر سفارتی تعلقات کے خواہاں تھے۔مگر حالات ایسے بنتے گئے کہ پاکستان کو اپنی حمایت امریکی پلڑے میں ڈالنا پڑی 1948ء میں قائداعظم محمد علی جناح کی رحلت نے اس جواں حوصلہ رہنما کے چیلنجز میں اور اضافہ کر دیا قائداعظم کی امنگوں کے مطابق پاکستان کو اسلامی جمہوریہ مملکت بنانے کے لیے قانون سازی مشکل مرحلہ تھا ان کی جانب سے پیش کردہ قرار داد مقاصد پر انھیں ہی رفقاء کی جانب سے تنقید کا سامنا رہا ان کے اقتدار سنبھالنے کے تھوڑے ہی عرصہ بعد بھارت نے کشمیر کو بہانہ بنا کر پاکستان پر جنگ مسلط کرنا شروع کر دی تھی لیاقت علی خان نے حتی المقدور کوشش کی کہ سفارتی سطح پر مذاکرات اور سیاسی حکمت علی کے تحت اس معاملے کو خون خرابے کے بغیر حل کر لیا جائے لیا قت علی خان کے ناقدین کہتے ہیں کہ وہ ایک زیرک سیاستدان اور جید رہنما تھے مگر روس کے مقابلے میں امریکہ کو ترجیح دے کر انھوں نے غالبا درست فیصلہ نہیں کیا تھا 1950ء میں انھوں نے لیاقت نہرو معاہدے پر دستخط کیے جس کے مطابق دونوں ملکوں میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری اور سرحدی تناؤ کو کم کرنا مقصود تھا سیاسی اور سفارتی محاذوں پر برسرپیکار لیاقت علی خان کو بطور وزیراعظم ایک کمزور قومی معاشی ڈھانچے سے نبرد آزما ہونا پڑا اس کے ساتھ مسلم لیگ کی پاکستان میں کمزور ہوتی ہوئی پوزیشن بھی ان کے لیے بڑا مسئلہ تھی جہاں اختلافات بڑھتے جارہے تھے جنرل گریسی کی ریٹائر منٹ کے بعد انھوں نے جنرل ایوب خان کو پاکستان کی مسلح افواج کا پہلا مسلمان سربراہ مقرر کیا اسی دوران راولپنڈی سازش کیس بھی منظر عام پر آیا اورسول ملٹری تعلقات میں دراڑ کی نشانیاں ابتدا ہی سے رونما ہونا شروع ہو گئیں پاکستان اور اسرائیل دو ایسی ریاستیں ہیں جو دونوں ہی نظریہ پر قائم ہوئی ہیں پاکستان اسلام کے نظریہ پر جبکہ اسرائیل یہودیت و صہونیت کے نظریہ پر اور یہ دونوں نظریات ایک دوسرے کے الٹ ہیں اور ان کا ٹکراؤ ہمیشہ ہر دور میں رہا ہے قیام پاکستان کے اوائل میں ہی اس بات کا اعلان کر دیا گیا تھا کہ پاکستان کبھی اسرائیل جیسی متنازعہ مملکت کو تسلیم نہیں کرے گا پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو ایک بڑی رقم بطور اولاد پیش کرنے کا لالچ دیا گیا تھا جو اس وقت اربوں روپے مالیت کی تھی لیکن لیاقت علی خان نے اس وقت بڑی سختی سے یہ بات واضح کی تھی کہ ایسا ہونا کسی صورت بھی ممکن نہیں اور نہ ہی پاکستان کبھی اسرائیل کو تسلیم کر ے گی 1951ء بھارت نے جنگ کرنے کی خاطر اپنی فوجیں پاکستانی سرحد پر لا کر کھڑی کر دیں اور جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا لیاقت علی خان کے ایک جلسہ کے دوران تقریر کرتے ہوئے اپنا ”مُکہ“ہوا میں لہرایا اور کہا کہ بھارت کے لیے میرا یہ ایک مُکہ کافی ہے اس کے بعد بھارت نے اپنی فوجیں سرحد سے ہٹا لیں اور اس طرح جنگ کا خطرہ ٹل گیا پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی حب الوطنی ان کی جفاکشی اور ان تھک محنت ان کی مدبرانہ قیادت اور بے لوثی کی بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں لیکن قدرت نے انھیں زیادہ مہلت نہیں دی وہ راولپنڈی کے کمپنی باغ (لیاقت باغ) میں ایک عوامی جلسے کے دوران 16اکتوبر 1951ء کو ایک سفاک قاتل کی گولیوں کا نشانہ بن گئے اور انھیں ہسپتال لے جایا گیا مگر خون اتنا بہہ چکا تھا اور زخم اتنے گہرے تھے کہ وہ جانبر نہ ہو سکے اور وہ شہید ہو گئے لیاقت علی خان کو قائداعظم کے پہلو میں مزار قائد کے احاطے میں سپردخاک کر دیا گیا دعا ہے کہ اللہ انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عنائیت فرمائے۔ (آمین)

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں