146

پاکستان کا اپنے بچوں کے نام خط

(الف کی تلاش) سعدیہ کیانی
وطن عزیز پاکستان کی عمر 75 سال ہوگئی۔مگر اس غریب کی بدقسمتی تو دیکھئے بڑھاپے میں بھی سکون میسر نہ آیا۔ اتنے خزانے اور زرخیزی کے باوجود پاکستان اپنے بچوں کو دو وقت عزت کی روٹی کھلانے سے بھی قاصر ہے۔ حالیہ سیلاب نے تو رہی سہی ہمت بھی توڑ دی۔ جہاں اور وجوہات ہیں وہاں اس کے گھر کے مکین، محافظ،ملازم و ٹھکیداروں کی بے حسی، کرپشن، نااہلی اور بدنیتی بنیادی وجہ ہے جو وطن عزیز کا مال مفت جان کر بے رحمی سے لٹا رہے ہیں۔ المیہ تو یہ کہ پاکستان کے بیٹے بھی ذاتی پروجیکشن اور مال بنانے میں اتنا مصروف ہوگئے کہ انہیں اپنے گھر کی تباہی نظر نہیں آتی۔ پاکستان نے اپنی نقاہت اور کمزوری کو دیکھتے ہوئے اپنے بچوں (عوام) کو نصیحت کرنے کا فیصلہ کیا اور لکھاری سے کہا کہ میری نصیحت لکھو اور میرے بچوں تک پہنچا دو۔پڑھئیے پاکستان کا اپنے بچوں کے نام خط۔ میرے بچو!میری پیدائش 14 اگست 1947 کو ہوئی اور مسلمانوں کے اس سپوت کی پیدائش پر لاکھوں انسانوں کی قربانی دی گئی۔یہ اللہ کا حکم تھا۔ یہ خون کا صدقہ ضروری تھا ورنہ مسلمان اپنی دینی غیرت سے محروم ہو رہے تھے ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے۔میں اپنی مختصر تاریخ دہراتا ہوں کہ برصغیر پاک و ہند میں ہندو ارباب اختیار کو مسلم وجود کسی صورت قبول نہ تھا اور وہ مختلف حیلوں بہانوں سے مسلمانوں کو کمزور کررہاتھا۔ مسلمانوں کی تعلیم اور مذہبی آزادی سلب ہورہی تھی اور اگر کوئی پڑھ لیتا تو اسے ملازمت نہ دی جاتی۔ معاشی معاشرتی بدحالی کے شکار کے مسلمان جب اپنے رب کی جانب دیکھتے اور التجا کرتے کہ کوئی راہ دکھا دے، کوئی وطن عطا فرما جو تیرے دین کے ماننے والوں کے لئے تیری پیروی کو آسان کرے۔ہمیں اپنے معاملات کی ادائیگی میں آزاد کرے۔اللہ نے لاکھوں مسلمانوں کی فریاد سنی اور ایک ولی کو پاکستان یعنی میری پیدائش کا خواب دکھایا۔ پھر یہ خواب دو نظریہ قوم کو الگ کرنے کا سبب بنا جب علامہ محمد اقبال ؒنے ایک اسپیشلسٹ ایک سرجن محمد علی جناح ؒکو اس آپریشن (قیام پاکستان) کی تیاری کے لئے آمادہ کیا۔پھر ایک خونی تاریخ رقم ہوئی۔ اللہ کے دین کی سربلندی پر لاکھوں انسانوں نے شہادت قبول کی اور وہ میری پیدائش سے قبل و بعدازاں مسلمانوں کو ہندوؤں اور فرنگی کے تسلط سے آزاد کروا کر دو جہاں میں سرخ رو ہوئے۔حالات خراب تھے مگر مجھے جن کے حوالے کیا گیا وہ حالات سے بھی زیادہ خراب تھے۔میری پیدائش کے بعد سب سے پہلے میرے بابا محمد علی جناح ؒ کی جان لے لی گئی اور پھر مجھے پھوپھی فاطمہ جناح کی پرورش سے محروم کردیا گیا۔میرا بچپن مختلف ہاتھوں میں اچھلتے کودتے گزرا مگر کوئی بھی میرا ہمدرد نہ تھا۔ میں یتیم تھا مگر میری جائیداد بہت تھی اور جو بھی میرا سرپرست بنتا اس کی نگاہ میرے خزانوں پر ہوتی تھی۔ہر کسی نے اپنا اپنا حصہ لیا اور میری فلاح و بہبود کو پس پشت ڈال کر چلتا بنا۔ جیسے تیسے گرتا پڑتا میں دنیا کے ساتھ چلتا رہا مگر میری بدنصیبی کہ مجھے میرے اپنے چھوڑ گئے (بنگلہ دیش) میرا گھر ٹوٹا اور اہل خانہ دور ہوگئے۔کچھ بچے میرے پاس رہ گئے اور کچھ وہ لے گئے۔میں نے ہمت نہ ہاری آندھیوں طوفانوں زلزلوں سے نبردآزما رہا میرے بیٹوں نے یوں تو ہر مصیبت میں میرا ساتھ دیا مگر گھر کی حفاظت کا کوئی مستقل حل نہ نکالا۔نتیجہ یہ نکلا کہ میں آج پہلے سے زیادہ شکستہ اور غیر محفوظ ہوں۔ دوسری جانب بنگلہ دیش ترقی کرگیا کیونکہ اس طرف میری اولاد کو لٹی پٹی مفلس دھرتی ماں کی بے بسی کا احساس تھا۔انہوں نے بہت کم وسائل کے ساتھ محنت کی اور پورے خلوص سے ماں کی خدمت کی۔آج وہ دنیا کی دوڑ میں شامل۔ہیں اس کے بیٹوں نے گھر کو سنبھال۔لیا مگر افسوس میرے بیٹوں ں یمیری جڑیں کھوکھلی کردیں۔مجھے دنیا بھر میں رسوا کر دیا۔

میری عزت و وقار میں اضافہ کرنے کی بجائے اس میں کمی کے اسباب کرتے رہے۔بچو! نقاہت اور بے چینی ہر دم مجھے گھیرے ہوئے ہے۔ میں اپنی آنکھیں بند کروں تو مجھے اپنے بابا محمد علی جناحؒ کا پریشان چہرہ نظر آتا ہے۔ان کی آنکھیں سوال کرتی ہیں کہ میں دنیا کی ریس میں پیچھے کیوں رہ گیا؟ میرے بابا بہت قابل وکیل تھے اور ان کا خیال تھا کہ میں ان کا نام روشن کروں گا مگر ایسا نہ ہوا بلکہ میں ان کے نام کی عزت بھی قائم نہ رکھ سکا۔ میں اپنے بابا سے شرمندہ ہوں میرے بچو!میری طبیعت اب ٹھیک نہیں۔میں تمہیں اپنے تجربے کی روشنی میں کچھ سمجھانا چاہتا ہوں۔ کچھ نصیحتیں کرتا ہوں جن پر عمل کرکے تم کم از کم اپنے گھر اور خاندان کی حفاظت کر سکو گے۔ میں دیکھتا ہوں میرے بچوں کے گھر گلی محلے صاف نہیں۔ میرے بچے آپس میں بھائی چارہ اور محبت سے محروم ہیں۔ میں نے دیکھا میرے بچوں میں اتفاق اور ایک دوسرے کے لئے خلوص نہیں۔مجھے ڈر ہے میرے بچو۔مجھے اس بات کا خوف ہے کہ میں ان حالات میں اپنی طبعی عمر سے پہلے رخصت نہ ہوجاوں۔ مجھے اپنی فکر اسلئے ہے کہ میرے وجود سے تمہارا وجود قائم ہے میرے بچو۔یہ دنیا تمہیں شناخت کے بنا قبول نہ کرے گی اور شیطانی قوتیں تمہارے ایمان کو اچکنے کے لئے ہر دم تیار کھڑی ہیں۔ تمہیں صرف دنیا داری نہیں کرنی بلکہ اللہ کے حضور پیش ہونے کے لئے اسباب بھی چاہیئں۔ اپنے شب و روز کو بدلو میرے بچو۔چھوٹی چھوٹی باتوں سے بہتری پیدا کرو۔ اپنے اخلاق اور کردار کو سنوارو اور پھر دوسروں کو اپنا گرویدہ بناو۔تم جہاں رہتے ہو وہاں بھی بہت سارے مسائل ہوتے ہیں۔ ان مسائل کی نشاندہی کرنے کا ایک مثبت طریقہ اپناو۔ جہاں بولنے سے کام ہوجائے وہاں بولو، خاموش نہ رہو۔جہاں لکھنے کی ضرورت ہے وہاں لکھو اور انتظامیہ کو مطلع کرو،تمہیں مثال د ے کر سمجھاتا ہوں۔میری یہ بیٹی جہاں رہتی ہے وہاں لوگ گھروں کے باہر کاریں دھو کر پانی سڑکوں پر بہا دیتے ہیں اور پھر پانی کے اخراج کا کوئی راستہ نہیں ہوتا اور گندگی کا سلسلہ بن جاتا ہے۔ سڑک کنارے گڑھوں میں پانی جمع ہوجاتا ہے، مچھر مکھی اور بیماریاں جنم لیتی ہیں۔بعض اوقات کسی گٹر کا پانی بھی شامل ہو کر آنے جانے والوں کے لئے مشکلات پیدا کرتا ہے۔میری بیٹی نے اپنے تئیں پیغام بھجوایا کہ ایسا نہ کریں مگر کسی کے کان پر جوں نہ رینگی۔ اب شہر کی انتظامیہ کو آگاہ کیا ہے اگر انہوں نے کوئی ایکشن نہ لیا تو اس کا اگلا ہدف ڈی سی آفس ہوگا۔ جب بات سماجی زندگی کو بہتر بنانے کی ہو تو پھر انتظامیہ رعایت کی مستحق نہیں۔ اگر انتظامیہ کے نمائندے اور افسران کام کرنا نہیں جانتے تو تمہارا کام ہے کہ انہیں وہ طریقہ بتاو جس سے وہ کام بھی کر سکیں اور اپنی ساکھ بھی بچا سکیں۔ تمہیں اپنے بنیادی حق کے لئے قوت کے ساتھ کھڑے ہونا ہوگا۔ خود کسی کو تکلیف نہ دو مگر جب کوئی تمہیں یا اردگرد ماحول کو متاثر کرے تو تم اس کی طبیعت ضرور صاف کرو۔ ایسا کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ میری نرمی اور شفقت نے سب کا مزاج بگاڑ دیا ہے۔اب یہاں عوام و خواص کا مزاج بات سے نہیں لات سے سمجھنے والا ہوچکا ہے۔ اگر تم میری اور اپنی حالت کو سدھارنا چاتے ہو تو تمہیں پہلے اپنے حقوق و فرائض کو اچھی طرح سمجھنا ہوگا پھر دوسروں کو سمجھانا ہوگا۔تمہیں جب کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو تو تم اپنے دوستوں، بہن بھائیوں اور اہل محلہ سے بات کرو۔اپنے سوشل میڈیا پر لکھو اور تم سب مل کر اس کا حل نکالو۔سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو اپنے معاشرے کی بہتری کے لئے استعمال کرو۔ سیاست پر گفتگو اتنی ہی کرو جتنا تمہیں اثرانداز ہوتی نظر آئے۔ یہاں بیٹھ کر جلی کٹی باتیں کرنے سے کسی کا بھلا نہیں ہوگا بلکہ ذہنی انتشار میں اضافہ ہوگا۔ میرے ملازم کام چور ہیں انہیں صرف تخواہ سے مطلب ہے اور ٹھیکدار (ارباب اختیار) بدنیت ہے۔ وہ تمہاری بات صرف ٹھیکہ (ووٹ) لینے سے پہلے سنتا ہے اور پیسہ ملتے ہی (اقتدار میں آنے کے بعد) سیسہ پگھلا کر کانوں میں ڈال لیتا ہے بعد میں چاہے بولو چیخو چلاو مگر کچھ حاصل نہیں۔ اس کا طریقہ کچھ اور ہے جو میں وقت آنے ہر بتاوں گا کہ کس طرح اپنے حلقے کے  نمائندے کو پکڑ سکتے ہو۔ فی الحال تو وہ کرو جو تم کو مضبوط بنا سکتا ہے۔ سب سے پہلے اپنی معمولات زندگی کو توازن میں لاو۔ پڑوسیوں سے معاملات بہتر کرو اور اردگرد پر نگاہ رکھو۔ محلے کے مسائل کو حل کرنے کے لئے پہلے نرمی اور پھر گرمی دکھا سکتے ہو مگر گرمی سے پہلے کچھ مثبت سوچ کے حامل ہم خیال بنالو تاکہ تمہارا پلڑا بھاری ہو۔تم اصلاح کرو اور پہلے خودصالح بن جاو۔اپنے گھر گلی اور محلے کے ذمہ دار تم ہی ہو۔ میرے بچو۔کوڑا کرکٹ پھینکو نہ پھینکنیدو۔ صفائی کرنے والے کی عزت کرو اور اسے کچھ دو چار سو فالتو دے کر گلی کی صفائی کرواو۔ایک دو بار جب خود صفائی کروا لو گے تو کسی دوسرے کو ترغیب دینے کی پوزیشن میں آجاو گے۔ اسی طرح کم آمدنی والے خاندانوں کی مالی معاونت کرو۔ گھر سے پکا ہوا کھانا بھیج دو اور ان کے بچوں کو کچھ نہ کچھ دیتے رہؤ۔ اس طرح مدد بھی ہوگی اور تمہارے لئے محلے میں عزت بڑھے گی۔ اپنے ارد گرد ماحول کا جائزہ لو اور دیکھو اگر کوئی خالی پلاٹ ہے تو مالک سے رابطہ کرکے اسے صاف کروا لو اور جب تک مالک اس پلاٹ کو استعمال نہی کرتا اسے خواتیں اور بچوں کے لئے پارک کی شکل دے دو۔ خالی پلاٹ نہیں تو پھر کوئی اور جگہ تلاش کرو۔ اپنی عورتوں اور بچوں کی تفریح کے لئے کوئی نہ کوئی بندوبست ضرور کرو۔ان کا صحت مند اور خوش رہنا تمہارے لئے آسانی کرے گا اور معاشرے کے لئے سکون کا سبب بنے گا۔ اگر یہ کام ساریلوگ مل کر کریں تو محلہ اتفاق و بھائی چارے کا مسکن بن جائے گا۔ جب ایک محلہ ایسا ماحول۔پیش کرے گا تو اس کی دیکھا دیکھی دیگر گلی محلوں میں بھی لوگ فلاح و خیر کے لئے کوشش کریں گے۔ یہ سب وہ کام ہے جو تم بآسانی کسی انتظامیہ و وزیر کی مدد کے بغیر بھی کرسکتے ہو۔ یہ چھوٹی چھوٹی سی باتیں اس لئے بتا رہا ہوں کہ مجھے میرے بیٹوں نے بہت مایوس کیا ہے میں نہیں چاہتا کہ تماری زندگیاں مزید کسی تبدیلی کے انتظار میں خراب ہوں۔ کوئی آسمان سے نہیں اترے گا تبدیلی لے کر۔ یہ بدلاو تمہیں نے اپنے اندر پیدا کرنا ہے اور اسی اندرونی تبدیلی سے باہر انقلاب برپا ہوگا۔میرے بچو! یاد رکھو رزق حلال میں برکت ہے۔ اللہ نے رزق تمہارے نصیب میں لکھا ہے اسے کوئی دوسرا نہیں چھین سکتا اور جو مقدار لکھی ہے اس سے زیادہ تم حاصل نہیں کرسکتے اسلئے رزق کمانے کے لئے ناجائز ذرائع استعمال نہ کرنا۔ ہمیشہ صحیح راستے کا انتخاب کرنا۔ درست سمت سفر کرو چاہے سست روی سے کرو یہ تمہیں منزل تک ضرورپہنچا دے گا مگر غلط راستہ و روش تمہیں کبھی کہاں اور کبھی کہاں بھٹکاتی رہے گی۔ تم خود بھی برباد ہوجاو گے اور اپنے بچوں کو بھی برباد کردوگے۔اس تباہی سے بچنے کے لئے اپنی زندگیوں سے ناجائز کو نکال باہر کرو۔ بہت زیادہ ھوس نہ کرو یہ تمہیں دنیا و آخرت دونوں میں رسوا کردے گی۔جو لباس تم نے زیب تن کیا ہے تمہاری موت کے بعد اسے بھی تن سیجدا کردیا جائے گا۔ تم اپنے بدن کو ڈھانپنے والے کپڑے بھی قبر میں نہیں لے جاسکو گے تو اتنی جائیدادیں زر و دولت کس کے لئے جمع کرتے ہو؟ اولاد کے لئے؟ اگر دوسروں کا حق مار کر تم اپنے بچوں کے لئے کچھ جمع کرو گے تو یہی بچے کل تمہاری قبر پر فاتح کہنے کا وقت بھی نہ نکال پائیں گے کیونکہ انہیں تمہاری جمع شدہ کمائی سنبھالنیسے فرصت نہ ہوگی۔ اسلئے صرف اتنا مال جمع کرو جو تمہاری بنیادی ضرورت کو پورا کرے اور اپنے اضافی مال سے غریب ہم وطنو کی مدد کرو۔ انہیں کاروبار جما کر دو۔ان کے گھروں میں اسباب زندگی مہیا کرو۔ یہ سب خیر کے کام ہیں۔ یہ سب وہی امور ہیں جن کی ادائیگی کا حکم ہمارے رب نے دیا اور اس آذادانہ مشق کے لئے اللہ نے مجھے(پاکستان) تخلیق کیا۔میرے بچو!تم اپنی اصلاح کرکے میری عمربڑھاسکتے ہو۔ جس روش کا کچھ طریق تم کو سمجھایا اسی پر چلتیرہو۔قران و سنت سے رہنمائی لو اور انہیں کو اپنا امام بنا لو۔ میری خدمت کرنے کے لئے بس اتنا ہی کافی یے کہ تم اپنے کردار مضبوط کرو اور اپنے بچوں کی تربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کرو۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم سمجھواور اس پر کاربند رہو۔ حق بات کہو، حق بات سنو اور اس کی تائید کرو۔ غریب کی مدد کرو اور اپنے بھائیوں کا سہارا بنو۔ کرپشن چاہے ایک پائی کی ہی کیوں نہ ہو اس سے باز رہو۔ لایعنی اور غیر ضروری امور میں وقت برباد نہ کرو۔میرے بازو تم ہو اور جب تم مضبوط ہوجاو گے تو میرے وجود کا بوجھ اٹھا لو گے۔ میرے دل کی تسکین اسی میں ہے کہ میں اپنے بابا محمد علی جناح کی توقعات و معیار پر پورا اتروں اور اس کے لئے مجھے تمہارا خلوص اور تعاون درکار ہے۔تم آباد رہو۔ شاد رہو، میرے دل کو تمہاری خوشحالی قوت دے گی۔میری نصیحتوں پر عمل کرنا اور جب یہ بنیادی اصلاح کرلو گے تو میں تمہیں آئیندہ کا لائحہ عمل دوں گا۔ اب مجھے خط لکھ کر اپنی بہتر معاشرت کی خوشخبری دینا۔ میں بیقراری سے تمہارے پیغام کا منتظررہوں گا۔
مہارا
اسلامی جمہوریہ پاکستان

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں