125

پاکستان میں سالانہ سیلاب اور حکومتی اقدامات/ضیاء الرحمن ضیاءؔ

پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل سیلاب آرہے ہیں جو ملک کے مختلف علاقوں میں تباہی کا باعث بنتے ہیں۔اب تو یہ سیلاب سالانہ سیلاب کی شکل اختیارکر گئے ہیں جو بلا ناغہ ہر سال مون سون کے موسم میں آتے ہیں اور انتہائی نقصان کر جاتے ہیں۔ ہر سال آنے والے سیلابی ریلوں نے ملک میں کافی نقصان پہنچایا، 2010میں آنے والے سیلاب سے 3کروڑ افراد متاثر ہوئے2ہزار افراد ہلاک ہوئے اسی طرح ہر سال آنے والے سیلابوں سے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔پاکستان میں ہر سال آنے والے سیلابوں سے سینکڑوں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں، ہزاروں مویشی ہلاک ہو جاتے ہیں ،کئی ہزار ایکڑ ذرعی زمینیں تباہ ہو جاتی ہیں،مکان منہدم ہو جاتے ہیں،ہزاروں لوگ بے گھر ہو جاتے ہیں جو کھلے آسمان کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہر جاتے ہیں جن کے پاس نہ کھانے کو خوراک ہوتی ہے اور نہ رہنے کو مکان ، وہ لوگ دوسروں کی امداد کے منتظر رہتے ہیں ان کے لیے کچھ علاقوں میں عارضی خیمہ بستیاں قائم کر دی جاتی ہیں لیکن وہاں بھی ناقص خوراک ،صاف پانی کی عدم دستیابی اور صفائی کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے مختلف وبائی امراض پھوٹ پڑتے ہیں جو ان لوگوں کے لیے مزید پریشانی کا باعث بن جاتے ہیں اگرچہ پورے ملک سے ان کے لیے امداد دی جاتی ہے بلکہ بیرون ممالک سے بھی امداد آتی ہے لیکن یہ امداد ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہوتی ہے۔ پچھلے چند سالوں سے جو سیلاب آرہے ہیں وہ تقریباً تمام ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں ۔ چترال ، خیبر پختونخواہ ، پنجاب کے میدانی علاقے ،سندھ ،بلوچستان اور آزاد کشمیر سمیت بہت سے علاقے ان سیلابی ریلوں سے متاثر ہوتے ہیں اور جن علاقوں میں یہ سیلاب آتے ہیں ان علاقوں کے لوگ اکثر غریب ہوتے ہیں جو ذراعت اور کھیتی باڑی کر کے گزارا کرتے ہیں یا مویشی پال کر گزر اوقات کر لیتے ہیں لیکن سیلاب میں جب ان کی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں یا ان کے مویشی ہلاک ہو جاتے ہیں تو ان کی معیشت کا آخری ذریعہ بھی ان سے چھن جاتا ہے جس سے ان کی غربت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔
ان سالانہ سیلابوں کی وجہ سے ذراعت کو بھی بہت نقصان ہوتا ہے ۔ پاکستان چونکہ ایک ذرعی ملک ہے اور ذراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ذراعت کے بغیر ملکی معیشت کا پہیہ چلنا ناممکن ہے ۔پاکستان کی اہم فصلوں میں گندم ، کپاس ،گنا اور چاول ہیں جو بیرون ممالک کی منڈیوں میں خاص اہمیت رکھتی ہیں اور ان فصلوں سے قیمتی ذرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ جس سے ملک کی معیشت مظبوط ہوتی ہے ۔ پاکستان میں 60فیصد سے زائد آبادی ذراعت سے وابستہ ہے اور ملکی زر مبادلہ کا بائیس فیصد حصہ ذراعت سے حاصل ہوتا ہے اس کے باوجود ملک میں زراعت کی ترقی کا عمل سست روی کا شکار ہے جس کی مختلف وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ سیلاب بھی ہیں ۔ ہر سال تیز بارشوں کی وجہ سے دریاؤں پر بنے ناقص بند ٹوٹنے سے ہزاروں ایکڑ کھڑی فصلیں سیلاب کی نذر ہو جاتی ہیں جو کہ ملکی معیشت کے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ صرف 2011میں سیلاب سے صوبہ سندھ میں پچاس فیصد سے زائد فصلیں تباہ ہوئیں اور ملک کو مجموعی طور پر ڈیڑھ سو ارب روپے کا نقصان ہوا۔ یہ تو ایک سال کا اندازہ ہے ہر سال اسی طرح بلکہ کئی بار تو اس سے بھی زیادہ نقصان ہوتاہے ۔
ان نقصانات کی بڑی وجہ حکومت کی سستی اور ہمارے سرکاری اداروں کی ناقص کارکردگی ہے۔ ہر سال کی طرح ا س سال بھی مون سون کی بارشوں کا سلسلہ شروع ہو چگا ہے اور اکثر مقامات پر کہیں کم اور کہیں زیادہ بارشیں ہو رہی ہیں اور محکمہ موسمیات کی پیشنگوئی کے مطابق اس سا ل بارشیں گزشتہ سالوں سے زیادہ ہوں گیں جن میں گزشتہ سالوں کی نسبت تقریباً 20فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے اگرچہ محکمہ موسمیات نے اپنے متعلقہ اداروں کو خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار رہنے کی تنبیہ کر دی ہے لیکن یہ سب صرف زبانی کلامی ہی ہو رہا ہے کوئی عملی اقدامات نظر نہیں آتے۔ ہر سال سرکاری ادارے متاثرین کومکمل ریلیف دینے میں ناکام رہتے ہیں۔ سیلاب کی پیشگی اطلاع دینے کا بھی کوئی مؤثر انتظام موجود نہیں ہے پاکستان میں پہلا وارننگ سسٹم 1978میں سیالکوٹ میں نصب کیا گیا تھا دوسرامنگلا کے مقام پر2004 میں نصب کیا گیا یہ تمام ریڈار ناکارہ ہو چکے ہیں صرف ایک ریڈار ابھی بھی کار آمد ہے جو1994میں ڈی آئی خان میں نصب کیا گیا تھا۔ایک ریڈار کی اوسط عمر دس سال ہوتی ہے اس کے بعد اس کو تبدیل کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں تو حالت یہ ہے کہ ان میں سے بعض ریڈار 20سے 25سال پرانے ہو چکے ہیں جنہیں تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اس کے علاوہ ہمارے ہاں سیلاب سے بچاؤ کے لیے کو بہتر منصوبہ بندی نہیں کی جاتی جب سیلاب آتا ہے تو ذمہ دار ادارے تھوڑی سی دوڑ دھوپ کر تے ہیں کچھ امدادی کام کر کے پھر سے خاموش بیٹھ کر سارا سال گزار دیتے ہیں اور آئندہ سال پھر وہی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ ہمارے سیاستدان تو بس ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر ہوائی نظارہ کر لیتے ہیں یا کچھ نیچے اتر کر سیلاب متاثرین کے ساتھ تصویریں بنوا کر اپنے گمان کے مطابق اپنا فرض ادا کر دیتے ہیں۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ سیلاب سے بچاؤ کے لیے مستقل اور پائیدار منصوبہ بندی کی جائے ۔سیلاب کی پیشگی اطلاع دینے دالے ریڈار سسٹم کو درست کیا جائے اور جدید ٹیکنالوجی کے حامل مزید ریڈار نصب کیے جائیں کیوں کہ یہ بروقت حفاظتی اقدامات کرنے میں بہت معاون ثابت ہوتے ہے۔اس کے علاوہ زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی ضرورت ہے کیوں کہ درختوں کے جہاں اور بے شمار فوائد ہیں وہاں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ درخت سیلاب کے تیز پانی کو روکتے ہیں جس سے سیلاب کا خطرہ کافی حد تک کم ہو جاتا ہے اور پانی زمین میں جذب ہو جاتا ہے جس سے زیرِ زمین پانی کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے۔ سیلاب سے بچاؤ کے لیے سب سے اہم چیز ڈیموں کی تعمیر ہے ۔ بھارت نے پاکستان کی ذرعی زمینوں کو سیراب کرنے والے دریاؤں پر 60سے زائد ناجائز ڈیم تعمیر کر رکھے ہیں جن میں پانی روک لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ملک کا کروڑوں ایکڑ رقبہ پانی کی کمی کی وجہ سے بنجر ہورہا ہے اور جب ہمارے ملک میں سیلاب آتا ہے اور پانی بہت زیادہ ہو جاتا ہے تو بھارت بھی موقع سے فائدہ اٹھاتا ہے اور ایک غیر انسانی حرکت کرتے ہوئے اپنے ڈیموں میں ذخیرہ شدہ پانی بھی چھوڑدیتا ہے جو ہمارے دریاؤں پر بنے کچے بند برداشت نہیں کر سکتے اور ٹوٹ جاتے ہیں جس سے بے انتہا جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے لہٰذا ملک میں دریاؤں پر ڈیم تعمیر کرنا آج کی اشد ضروت ہے تا کہ سیلاب کے پانی کو ان ڈیموں میں ذخیرہ کر لیا جائے اور بعد میں پورا سال جب پانی کی کمی ہوتی ہے تو اس پانی کو ملکی ضروریات کے لیے استعمال کیا جا سکے ۔ یہ ڈیم ایک تو سیلاب سے نجات حاصل کرنے میں مدد دیں گے اور دوسری طرف ملک میں سستی بجلیپیدا کرنے کا بھی ایک بہترین ذریعہ ہوں گے ۔ لہٰذا حکومت کو اس سلسلے میں جلد اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تا کہ مزید نقصان سے بچا جا سکے۔ {jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں