175

پاکستان میں بیوروکریسی کا کردار

کسی بھی ملک کے انتظامی ڈھانچے میں بیوروکریسی کو مرکزی حیثیت حاصل ہو تی ہے یہ وہ ادارہ ہے جو حکومتی پالیسیوں کو عملی جامعہ پناتی ہے اور ریاستی مشینری کو رواں رکھتا ہے عوامی خدمات کی فراہمی ہو یا قانون کے نفاذ کا معاملہ ترقیاتی منصوبوں کی نگہبانی ہو یا قومی وسائل کی تقسیم ہر شعبے میں بیوروکریسی کا کردار کلیدی ہوتاہے اسی لئے اسے ریاست کی ریڑھ کی ہڈی کہاجاتا ہے کیو نکہ اس کے بغیر حکومتی نظام کھوکھلااور بے سر اہوتاہے لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب بیوروکریسی ذاتی مفادات،گروہی وفاداری دباؤ کی زد میں آجائے تو وہی ادارہ جو ملکی ترقی کا ضامن ہوتا ہے

سماندگی اور ناکامی کا ذریعہ بن جاتا ہے جب قوانین صرف رشوت کرپشن کے عوض حرکت میں آئیں جب عہدے سفارش سے ملیں اور جب میرٹ کی جگہ مصلحت لے لے تو نظام میں بددلی بے اعتمادی اور ناانصافی جنم لیتی ہے ایسی بیورو کریسی عوام کو انصاف سہولت اور ترقی دینے کے بجائے ان کے لئے ایک دیوار بن جاتی ہے پاکستان میں بیوروکریسی کا یہی دوہراچہرہ سامنے نظر آتارہاہے جہاں کچھ انسان اپنی دیانتداری اور کارگردگی کی مثال بنے وہیں کئی ایسے بھی ہیں جنہوں نے اختیارات کا نا جائز استعمال کرتے ہوئے نہ صرف اداروں کو نقصان پہنچایا بلکہ عوامی اعتماد بھی مجروح کیا اقرباپروری رشوت کرپشن سست روی اور سیاسی دباؤ نے بیوروکریسی کو اس کے اصل مقصد سے ہٹا دیا ہے اس لئے بیوروکریسی میں اصلاحات لانا وقت کی اہم ضرورت ہے افسران کو شفاف احتساب کے عمل سے گزارا جائے انہیں سیاسی مداخلت سے آزاد رکھا جائے اور تربیت وسائل اور آزادی عمل فراہم کی جائے صرف وہی بیوروکریسی ریاست کی حقیقی خدمت کر سکتی ہے جو قانون کی بالادستی عوامی مفاد اور پیشہ ورانہ دیانت داری کو اپنا نصب العین بنائے پاکستانی بیوروکریسی سیاستدانوں کو پہلے جال میں پھنساتی ہے اور بعد میں ان سے مفادات لے کر خودکو وہاں سے بچالیتی ہے

اس کے لئے کئی طریقے ہیں کیو نکہ بیوروکریٹس کے خلاف کارروائی کے لئے انکوائری سروس رولز اور محکمہ جاتی اجازت درکار ہوتی ہے اکثر کیسز میں یہ رکاوٹ بن جاتے ہیں یا پھر اندرونی انکوائری کے نام پر معاملہ دبادیاجاتا ہے اعلیٰ سطح پر بیوروکریسی میں ایک مضبوط نیٹ ورکنگ ہوتی ہے جس میں وہ ایک دوسرے کو بچانے یا تحفظ دینے میں کردار اداکرتے ہیں بیوروکریسی کے خلاف جب کوئی اسکینڈل سامنے آتا ہے تو سیاستدانوں کو نیب یا میڈیا کی زد میں لایا جاتا ہے جبکہ بیوروکریٹس کے خلاف یا توہوتی ہی نہیں یا بہت تاخیر سے اور نرم انداز میں ہوتی ہے بیوروکریٹس کے خلاف تحقیقات اکثر سست نرم یا غیر مؤثر رہتی ہیں سیاستدانوں کے لئے پلی بارگین کا راستہ مشکل ہوتا ہے یا انہیں میڈیا ٹرائل سے گزرنا پڑتا ہے معیشت کسی بھی قوم کی ترقی کی بنیاد ہوتی ہے اور جب کوئی نظام اس بنیاد کو کمزور کرے تو ترقی کے خواب ادھورے رہ جاتے ہیں پاکستان میں ایسی ہی ایک رکاوٹ بیوروکریسی کی شکل میں موجود ہے جومعیشت دو ست ہونے کی بجائے سرمایہ کاری کی راہ میں ایک نہایت پیچیدہ خوفناک اور غیر یقینی بندش بن چکی ہے

پاکستان میں اگر کوئی کاروباری شخص یاسرمایہ کار ایک درمیانے درجے کا صنعتی یونٹ لگانے کی کوشش کرے تو ایسے درجنوں محکموں درجنوں قوانین اور بیوروکریسی کی درجنوں شرائط کا سامنا کرنا پڑتا ہے ایک این اوسی کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا جیسے یہ عمل کبھی مکمل نہ ہو ضابطوں کا ایک ایسا شیطانی جال بچھا دیا گیا جس سے بچ نکلنا تقریبا ناممکن ہے فائل غائب کر دینا اعتراض لگا دینا یا قانونی سقم نکال کر تا خیر کرنا یہ سب بیوروکریسی کی کارگردگی کے روزمرہ نمونے بن چکے ہیں بیوروکریسی کے پاس بے پناہ اختیارات سرکاری وسائل اور تحفظ حاصل ہے مگر اس کے احتساب کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں یہی غیر جوابدہی بیوروکریسی کے اس مزاج کوجنم دیتی ہے

اس ادارے کو شفاف معیشت دوست اور سہولت کار بنانے کی اشد ضرورت ہے قانون کو آسان اور یکساں بنانا ہو گا اور سرمایہ کار کو تحفظ سہولت اور عزت دینی ہو گی بیوروکریسی کا کام عوامی فائدہ اور معیشت استحکام ہے نہ کہ اختیار کے ذریعے رکاوٹیں کھڑی کرنا اگرہم ایک ترقی یافتہ پاکستان کا خواب دیکھتے ہیں تو بیورو کریسی کو نو آباد یاتی ماحول سے نکال کر ایک جدید عوام دوست اور سرمایہ کاری نواز نظام میں بدلنا ہوگا آج بیوروکریسی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ و ہ کام نہیں کرتی بلکہ یہ ہے کہ وہ صرف اپنے مفادات کے تحفظ میں سرگرم ہے ان کے لئے ضروری ہے کہ تنخواہیں بڑھتی رہیں گاڑیاں بنگلے پلاٹ الااؤنس اور پروٹوکول کی نہ ختم ہونے والی فہرست جاری رہے ان مراعات کے راہ فرار اختیار کرے سرمایہ کاری کے لئے جو ماحول درکار ہوتا ہے ہماری بیوروکریسی اس کے بالکل برعکس ماحول مہیاکرتی ہے ایک سرمایہ کار کودرجنوں این اور سیز،محکماتی اجازت نامر اور غیر ضروری قانونی موشگافیوں سے گزرنا پڑتا ہے فائلیں مہینوں دفتروں میں گھومتی ہیں اور اگر سر مایہ کار ان فائلوں کو پہیے نہ لگائے تووہ فائلیں اکثر گم ہو جاتی ہیں بیوروکریسی نہ صرف سہولت کار نہیں بنتی بلکہ ضابطوں کی رکاوٹیں ڈال کر داد بھی وصول کرتی ہیں جیسے ترقی کا عمل ان کی فرض کے بغیر شروع ہی نہ ہو سکتا ہو اس تلخ حقیقت کو سمجھنے کے بعد سوال یہ پید ا ہو تا ہے کہ کیا ہمارا ملک ایسے ہی چلتارہے گا؟ ہر وہ شخص جو پاکستان میں کاروبار کرنا چاہے گا وہ پہلے بیوروکریسی کی خوشنودی حاصل کرے یہ رویہ نہ صر ف ملکی معیشت کو نقصان پہنچاتاہے بلکہ عالمی سطح پر ہماری ساکھ کو بھی مجروح کرتاہے جو سرمایہ کارآسانی چاہتا ہے وہ بیوروکریسی کی سرخ فتنے تاری سے گھبرا کر دوسرے ممالک کا رخ کرتا ہے جہاں کاروباری ماحول دوستانہ ہوتاہے بیوروکریسی کو مراعات کی فہرستوں سے نکال کر جوابدہی کارکردگی اور عوامی مفاد کے دائرے میں لانا ہو گا اضابطے آسان کئے جائیں فائلوں کو روکنے کا کلچر ختم کیا جائے اور سرمایہ کاروں کوشک وشبہ کے بجائے اعتماد دیاجائے صرف ایسی صورت میں بیوروکریسی معیشت کی دشمنی چھوڑ کر اس کی سچی حلیف بن سکتی ہے پاکستان میں سرمایہ کاری میں شدید کمی کی ایک اہم وجہ غیر ضروری بیوروکریٹک رکاوٹیں اور ریگولیٹر ی تقاضے ہیں جو دراصل سرمایہ کاروکی حوصلہ شکنی کرتے ہیں او ر نئے منصوبوں کے آغاز کے علاوہ پرانے منصوبوں کی تکمیل میں رکاوٹ کا سبب ہیں یہ وہ بات ہے جو ایک غیر ملکی مبصر آسانی سے دیکھ اور سمجھ سکتا ہے مگر افسوس کہ ہمارے پالیسی ساز وزراء اور افسران اس حقیقت کو یاتو سمجھنا نہیں چاہتے یا پھر جان بوجھ کرنظر انداز کرتے ہیں ضرورت اس امرکی ہے کہ بیوروکریسی کو سیاسی اثر و سوخ سے آزاد کیاجائے اسے قانون کے سامنے جوابدہ بنایا جائے تقرریوں اور تبادلوں کا ایک شفاف اور میرٹ پر مبنی نظام قائم کیاجائے تاکہ ریاستی نظام مضبوط پائیداراور غیر جانبدار بن سکے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں