قومی معاشی معاملات سر دست قابو میں نہیں آرہے ہیں روپے کی قدر گرتے گرتے خاصی نڈھال ہو چکی ہے ڈالر دوسو دس روپے کے اردگرد منڈلاتا رہا ہے لوڈشیڈنگ کے ساتھ ساتھ بجلی کے نرخ کے بارے میں حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس میں ہر وقت کچھ نہ کچھ اضافہ ہوتا رہتا ہے کبھی ایک نام اور کبھی دوسرے نام سے اس میں مختلف ٹیکسز شامل کئے جا رہے ہیں اس لئے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کہاں تک ہوتا رہے گا اور بجلی کے نرخ کہاں ٹھہریں گے کسی کو کچھ پتہ نہیں نرخوں کی بات کے علاوہ اب تو بجلی کی دستیابی بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے گھنٹوں کے حساب سے نہیں بلکہ بے حساب لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں عوام بے حال ہو چکے ہیں بجلی کے ترسیلی اوقات کسی کو پتہ نہیں بجلی کے وولٹیج میں اتارچڑھاؤ بھی کبھی کبھی جان لیوا ثابت ہوتا ہے جب پتہ چلتا ہے کہ بجلی کے جھٹکے فریج‘ٹیلی ویژن اور بجلی کے نازک آلات موت کے حوالے کر چکے ہوتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں کوئی سننے والے کہیں نہیں پٹرول اور اس سے متعلق مصنوعات کی قیمتوں میں تاریخی بلندی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں کچھ عرصہ پہلے تک کہا جاتا تھا کہ پٹرول کی قیمت ایک ڈالر فی لیٹر تک چلی جائے گی اور یہ انتہا ہوگئی لیکن ہم نے جیتے جی دیکھ لیا کہ ڈالر دوسو روپے کی نفسیاتی حد عبور کر گیا اور غیر نفسیاتی حد و حساب کا احترام کئے بغیر دو سو پچاس روپے تک جا پہنچی ہے جو کسی بھی طور پر بھی شہریوں اور صنعت و تجارت کیلئے قابل قبول ہونا تو دور کی بات جان لیوا ثابت ہو چکی ہے توانائی کے اتنے بلند نرخوں اور غیر یقینی صورتحال کے باعث ہماری صنعتی سرگرمیاں ماند پڑ چکی ہیں مصارف پیداوار کے اضافے کے باعث عالمی مارکیٹ میں ہماری مصنوعات کی کھیپ و طلب کم ہو رہی ہے معاشی عدم منصوبہ بندی کے باعث درآمدی اخراجات میں ہوشربا اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے زرمبادلہ کی آمد کم ہو رہی اور خرچ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے سر دست تجارتی خسارہ چالیس ارب روپے تک پہنچا ہوا ہے جبکہ ہمیں آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر کا پیکج حاصل کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑ رہا ہے آئی ایم ایف ہم سے ایسی شرائط منوا رہا ہے جن کا ماننا ہماری انفرادی معیشت کیلئے زہر قاتل ثابت ہو گا پٹرولیم و بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مہنگائی کا طوفان نہیں بلکہ سونامی آگیا ہے مہنگائی تیس فی صد سے اوپر جا پہنچی ہے عام استعمال کی اشیاء وضرویات بہت سے طبقات کی پہنچ سے دور جا چکی ہیں اشیاء خوردونوش کی مہنگائی خطرناک حدود کو چھو رہی ہے روپے کی بے قدری اور ذرائع آمدن کی قلت نے معاملات کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے عمران خان کی ساڑھے تین سالہ حکومتی کارکردگی کے بارے میں دو آرانہیں پائی جاتیں پی ٹی آئی حکومت کی نا اہلی و نالائقی اپنی جگہ اس پر متزاد انہوں نے سیاسی محاذ پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا ان کے ساڑھے تین سالہ دور حکمرانی میں چار بجٹ پیش کئے گئے اور ہر دفعہ بجٹ پیش کرنے والا نیا وزیر خزانہ ہوتا تھامعاشی پالیسوں کے عدم متزاد اور گہرائی کی عدم موجودگی کے باعث ہماری معیشت بگڑتی چلی گئی کہ وہ پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ چکی ہے معاشی بہتری کا وعدہ کر کے یہ اقتدار میں آئے تھے وہ ابھی تک نظر نہیں آرہی ہے عمران خان بائیس سال حکمران اشرافیہ اور نظام حکمرانی کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے رہے ان کی بہت سی باتیں تاریخی اور واقعاتی اعتبار سے صد فی صد درست نہیں انہوں نے اپنے آپ کو نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا اور معاشرے کے ایک طبقے نے ان کی یہ بات تسلیم بھی کر لی حتی کہ الیکشن 2018میں انہوں نے سب سیاسی
جماعتوں سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے اپنی قیادت کا لوہا منوالیا وہ اقتدار میں لائے گئے لیکن انہوں نے اپنے ووٹروں کو ہی نہیں بلکہ اپنے سر پرستوں کو بھی بری طرح مایوس کیا معاشی و انتظامی طور پر ہی نہیں بلکہ سیاسی طور پر بھی بری طرح ناکام ہوئے پھر اپنی سابقہ کارکردگی کی بنیاد وں پر ن لیگ اتحادی حکومت قائم ہوئی لوگوں کو اپنی مشکلات کے حل کی امید ہونے لگی تھی لیکن عوام کی امیدیں دم توڑتی نظر آ رہی ہیں موجودہ حکمران عوام کو ریلیف دینے کے وعدوں پر اقتدار میں آئے ہیں لیکن ابھی تک کسی بھی محاذ پر عوام کو ریلیف نہیں دیا گیا ہے ہماری موجودہ حکومت ایک محاذ پر بڑی تندہی اور دل وجان سے آگے بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور وہ ہے آئی ایم ایف کو منانے کا منصوبہ اور اسے خوش کرنے کے محاذ پر بڑی یکسوئی اور مہارت کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے ویسے حکمرانوں کی اعلیٰ ترین کاوشوں اور حکم بجا لانے کی تمام ممکنہ اور غیر ممکنہ کاوشوں کے باوجود ابھی تک آئی ایم ایف نے مان جانے کا اشارہ نہیں دیا حکمران جماعت کے وزراء اس حوالے سے مختلف بیانات جاری کر رہے ہیں سابقہ حکومت کی نالائقیاں اور نا اہلیاں سر دست منظر سیاست سے غائب ہو چکی ہیں اور مہنگائی میں لپٹے ہوئے عوام موجودہ حکمرانوں سے نالاں نظر آرہے ہیں بجٹ 2022-23میں سات ہزار چار ارب روپے کی ٹیکس وصولیاں کرنے کیلئے منصوبہ سازی نظر آتی ہے کیونکہ یہ بجٹ بھی آئی ایم ایف کی نگرانی میں اس کی خوشنودی کے حصول کی خاطر بنایا گیا ہے اس لئے اس میں تحریر کردہ اہداف کے حصول کی ممکنہ حد تک بہتر منصوبہ بندی نظر آ رتی ہے لیکن مہنگائی پر قابو پانے روپے‘قدر میں بہتری لانے اور عام الناس کی بہتری اور خوشحالی کیلئے کہیں بھی ٹھوس و پائیدار حکمت عملی نظر نہیں آ رہی قومی قرضوں پرسود اور اصل زر کی ادائیگی‘دفاعی اخراجات اور خسارے میں ملنے والی سرکاری‘کارباری اداروں کو ہلاک ہونے سے بچانے کیلئے مخصوص اخراجات کے بعد تھوڑی بہت رقم کو کار سرکار پر خرچ کرنے کے بعد کچھ بھی نہیں بچتا جو ملکی تعمیر و ترقی پر خرچ کیا جا سکے ایسے ترقیاتی منصوبے شروع کئے جا سکیں جو معیشت میں کھلے پن کا باعث بنیں روزگار کے مواقع پیدا کریں‘گردش زر میں اضافہ کریں عام آدمی کی قوت خرید میں بڑھوتری کا باعث بنیں خوشحالی لائیں مگر ایسا کچھ بھی ہوتا نظر نہیں آ رہا لہذا ہمیں ایسے ہی جینا ہو گا مرتے مرتے جینا ہو گا ایسی صورتحال میں ملک کی سیاسی جماعتوں‘اداروں اور طبقات کو تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر معیشت پر اتفاق رائے کی ضرورت ہے اس سلسلے میں وزیر خزانہ اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف طویل مدت معاشی پالیسی بنانے اور اس پر عمل کرنے کیلئے آواز اٹھائیں موجودہ صورتحال سے نکلنے کیلئے سیاسی اتفاق رائے اور سول سوسائٹی کی حمایت سے ملک میں معیشت کی بہتری کیلئے چارٹر آف اکانومی کی اشد ضرورت ہے ایسے چارٹر میں اصلاحات کی نشاندہی کی جائے معاشی و اقتصادی ترقی کیلئے پالیسیاں بنائی جائیں جس سے عدم مساوات کا خاتمہ ہو سکے روزگار کے مواقع پیدا ہوں غربت ختم اور خوراک کے تحفظ کی صورتحال میں بہتری کے ساتھ انسانی ترقی کو فروغ دیا جا سکے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی خدمات کی فراہمی ممکن بنانے‘ مارکیٹ کو ریگولیٹ کرنے اور کاربار کرنے میں آسانیوں سے معیشت مستحکم کی جا سکتی ہے جس سے حکومتی قرض کم اور بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ سکتے ہیں بہتر مالی‘مانیٹری‘تجارتی اور دیگر پالیسیوں کو ترتیب دینے اور ان پر عملدرآمد سے معیشت کی نمو میں تیزی لائی جا سکتی ہے