141

ٹریفک حادثات میں قیمتی جانوں کا ضیاع معمول کیوں؟

پاکستان میں ٹریفک کے مسائل اور آئے روز حادثات میں شہریوں کا جان کی بازی ہارنا معمول بن چکا ہے، صوبہ پنجاب اور راولپنڈی میں بھی صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ ان ٹریفک حادثات کی مختلف وجوہات ہیں جیسے ٹریفک قوانین سے لا علمی، سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ، سٹریٹ لائٹس کا نہ ہونا، کمسن بچوں کا گاڑیاں یا موٹر سائیکل چلانا، سواری کی بروقت مرمت نہ کرانا اور سڑکوں پر بے انتہا رش۔ بڑھتی آبادی کیساتھ سڑکوں پر گاڑیوں، بسوں، ٹریکٹروں، رکشوں، موٹرسائیکلوں وغیرہ کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ 35 سے 40 ہزار افراد ٹریفک حادثات میں اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں، لاکھوں افراد کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں جبکہ مالی نقصان اس کے علاوہ ہے۔ محض صوبہ پنجاب کی سڑکوں پر روزانہ اوسطاً 750 ایکسیڈنٹس ہوتے ہیں جن میں ہر روز اوسطاً 9 افراد جاں بحق ہوتے ہیں۔ ایک عالمی تحقیقاتی ادارے کے مطابق پاکستان میں ہلاکتوں کا باعث بننے والے عوامل اور بیماریوں میں سے ٹریفک حادثات 15 ہویں نمبر پر ہیں، یعنی ایڈز، ناقص خوراک، مرگی، تشدد اور خودکشیوں وغیرہ کے باعث موت کا شکار ہونے والوں سے زیادہ افراد دورانِ سفر ٹریفک حادثات میں مارے جاتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ زیادہ تر ٹریفک حادثات انسانی غلطی کے باعث ہی رونما ہوتے ہیں جس پر تھوڑی سی احتیاط اور قانون کی پاسداری یقینی بنا کر قابو پایا جا سکتا ہے۔ کئی واقعات میں گاڑی یا سڑک کی خرابی بھی حادثے کا باعث بنتی ہیں، دیگر بڑی وجوہات میں سڑکوں کی خستہ حالی، اوور لوڈنگ، ون وے کی خلاف ورزی، اوور ٹیکنگ، اشارہ توڑنا، غیر تربیت یافتہ ڈرائیورز، دوران ڈرائیونگ موبائل اور LED کا استعمال، نو عمری میں بغیر لائسنس کے ڈرائیونگ، بریک کا فیل ہو جانا اور زائد المدت ٹائروں کا استعمال شامل ہیں لیکن ایک اندازے کے مطابق سب سے زیادہ حادثات کا باعث ”جلد بازی“ ثابت ہوتی ہے۔ 80 سے 90 فیصد حادثات تیز رفتاری کے غیر محتاط رویے کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں۔ راولپنڈی میں کمسن بچے سڑکوں پر ٹریکٹر ٹرالیاں دوڑا رہے ہوتے ہیں جو اسی تیز رفتاری اور بد احتیاطی میں جان لیوا حادثات کا سبب بن جاتے ہیں۔ جا بجا نو عمر لڑکے اور بچے موٹرسائیکل اور گاڑیاں بھگا رہے ہوتے ہیں جو اشارے توڑنا، اوورٹیکنگ کرنا اور ون ویلنگ وغیرہ ”بہادری“ کی علامت سمجھتے ہوئے دوسروں کی زندگیوں کیلئے بھی خطرات پیدا کرتے ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شہریوں کی بھاری اکثریت ڈرائیونگ سکولز سے بنیادی تعلیم اور ٹریننگ حاصل کئے بغیر ہی ڈرائیونگ کرتی ہے کیونکہ یہاں ڈرائیونگ کی بنیادی تربیت کا کوئی موثر نظام موجود نہیں۔ ٹریفک پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق صرف راولپنڈی میں رواں برس 234 حادثات میں 126 افراد زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ 261 افراد زخمی ہوئے۔ چیف ٹریفک آفیسر راولپنڈی نوید ارشاد نے حوالے سے اپنا موقف دیتے کہا کہ ٹریفک پولیس تو ان حادثات کے سد باب اور روکتھام کی حتی المقدور کوشش کرتی ہے مگر اس ضمن میں شہریوں کے تعاون کے بغیر ان حادثات پر قابو پانا ممکن نہیں کیونکہ زیادہ تر حادثات اوور سپیڈنگ، کم سن ڈرائیور، سیٹ بیلٹ کے عدم استعمال کے باعث رونما ہوتے ہیں جبکہ موٹرسائیکل سواروں کی اکثریت ہیلمٹ کا استعمال نہیں کرتی جس کے سبب حادثے کی صورت میں ہیڈ انجری کے باعث زیادہ تر واقعات میں وہ جانبر نہیں ہو پاتے۔ اس کے ساتھ انھوں نے والدین کو بھی پیغام دیا کہ وہ اپنے بچوں کو مقررہ عمر اور ڈرائیورنگ لائسنس کے حصول سے پہلے موٹرسائیکل اور گاڑی نہ چلانے دیں کیونکہ وہ اس طرح نہ صرف اپنی زندگی خطرے میں ڈالتے ہیں بلکہ دوسروں کیلئے بھی مسائل پیدا
کرتے ہیں۔ والدین بچوں کو موٹرسائیکل اور گاڑی چلانا سکھاتے وقت انھیں ٹریفک قوانین سے متعلق بھرپور آگاہی دینے کی کوشش کریں۔ اس حوالے سے ٹریفک پولیس کے ایجوکیشن ونگ کی جانب سے خصوصی آگاہی مہم بھی سلسلہ وار جاری رہتی ہے جس میں پمفلٹ، بینرز، اشتہارات کے ذریعے اور مختلف تعلیمی اداروں میں جا کر ٹریفک قوانین کی اہمیت اور ڈرائیونگ کے اصولوں پر اگاہی دی جاتی ہے۔ نوید ارشاد نے شہریوں سے اپیل کی کہ وہ سموگ اور فوگ کے موسم میں سفر کرتے وقت خصوصی احتیاط برتیں۔ ٹریفک حادثات کی اس صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ پارلیمنٹ سے ٹریفک قوانین کی پاسداری کیلئے از سر قانون سازی کی اشد ضرورت ہے جبکہ پرائمری سے لے کر اعلیٰ تعلیمی ڈگری تک ہر کلاس میں ٹریفک قوانین کا خصوصی مضمون بھی شامل نصاب کیا جائے۔ اس اقدام سے ٹریفک قوانین اور سڑک حادثات سے متعلق آگاہی پھیلانے میں مدد مل سکتی ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں