ٹرمپ کا امن منصوبہ: گریٹر اسرائیل کی طرف ایک بڑا قدم

عالمی چوہدری امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پرانی مسلم دشمنی اور یہود دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے ایک بار پھر گریٹر اسرائیل کی طرف ایک اور قدم بڑھا دیا وہ اس طرح کے اس نے امن منصوبے کے نام پر 20 نکات پیش کیے جو سراسر امت مسلمہ اور بالخصوص فلسطینیوں کے مفادات کے خلاف ہیں۔ اس 20 نکاتی ایجنڈے میں فلسطینی ریاست کے قیام کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے صرف اتنا لالی پاپ دیا گیا ہے کہ ایک اتھارٹی قائم کی جائے گی جو جنگ بندی کروائے گی، خونریزی روکے گی اور ریفارمز پیش کر ے گی جن کی روشنی میں فلسطینی ریاست کی طرف قدم بڑھایا جائے گا یہ وقتی طور پر مسلمانوں کو اور خاص طور پر فلسطینیوں کو چکمہ دینے والی بات ہے کہ ان کے لیے ایک علیحدہ ریاست قائم ہونے جا رہی ہے اور خون خرابہ روکا جا رہا ہے حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے اسرائیل ایک ایسا سفاک ظالم درندہ ہے کہ جس پر کوئی معاہدہ،کوئی دباؤ اثر نہیں کرتا وہ پہلے بھی کئی بار جنگ بندی کے معاہدات کر کے اس معاہدے کی مدت کے اندر ہی اس کی خلاف ورزیاں کر چکا ہے کبھی بھی معاہدے کی پاسداری اسرائیل نے نہیں کی لہذا اب بھی اسرائیل سے کوئی خیر کی توقع نہیں  ہے۔
یہ 20 نکاتی امن منصوبہ دو چیزوں کے گرد گھومتا ہے پہلی یہ کہ حماس کو راستے سے ہٹایا جائے حماس ہی دنیا میں ایک ایسی طاقت ہے جو کسی نہ کسی درجے میں اسرائیل کے خلاف مزاحم بنی ہوئی ہے اور اسرائیل کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہے اور اسرائیل اس کا پوری طرح سے مقابلہ کرنے میں ناکام رہا ہے اسرائیل نے لاکھ کوشش کی پوری دنیا کا اسلحہ اس نے استعمال کر لیا پوری دنیا کی ٹیکنالوجی استعمال کر لی لیکن وہ حماس کو مٹانے یا حماس کے خلاف موثر کاروائی کرنے میں ناکام رہا۔ حماس نے اسرائیل کے خلاف کاروائیاں کی اور اسے کسی حد تک نقصان پہنچایا اور اس کی ساکھ بھی متاثر ہوئی لیکن اسرائیل اسے ختم کرنے میں ناکام رہا اور اپنے مغویوں کو بھی رہا نہ کروا سکا، جس کی وجہ سے اسرائیل کو نہایت سبکی ہوئی اور اپنے عوام کی طرف سے بھی اسرائیلی حکومت کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لیے اب ٹرمپ ابا جان کے ساتھ مل کر انہوں نے حماس کو راستے سے ہٹانے کا یہ آسان حل نکالا کہ مسلمانوں کو جنگ بندی کا چکمہ دیا جائے اور اس کے بدلے میں حماس کو غیر مسلح کر کے ختم کرنے کا کی شرط رکھی جائے تاکہ مسلمان خود ہی حماس پر ان شرائط کو قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالیں کہ کم از کم اس کے بدلے میں خون ریزی تو بند ہو جائے گی۔ لیکن ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا اس کا مقصد صرف اور صرف حماس سے جان چھڑانا اور حماس کو ختم کرنا ہے اس کو ختم کرنے کے بعد اسرائیل پھر سے اپنے مذموم عزائم کی طرف بڑھنے لگے گا اور اس کے سامنے جو تھوڑی سی مزاحمت ہے وہ بھی نہیں ہوگی۔
اس کے علاوہ اس 20 نکاتی منصوبے کا دوسرا بڑا مقصد گریٹر اسرائیل کے تصور کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ وقتی طور پر اسرائیل جنگ بندی اور خون ریزی روکنے کے نام پر حماس کو راستے سے ہٹا دے گا اور اپنے مغویوں کو رہا کروا لے گا جن کی وجہ سے اس پر عوامی دباؤ ہے تو اب وہ آزاد ہو کر پھر فلسطینیوں پر حملہ آور ہوگا پھر انہیں راستے سے ہٹانے اور غزہ پر مکمل قبضہ کرنے کے بعد دیگر اسلامی ممالک کی طرف متوجہ ہوگا اور اپنے گریٹر اسرائیل منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اسرائیل اتنی آسانی سے فلسطینی ریاست کو بننے دے اور اپنے گریٹر اسرائیل منصوبے کو پس پش ڈال دے جس کا نقشہ نیتن یاہولیے پھرتے ہیں اور پوری دنیا کو دکھاتے ہیں۔ اسے اقوام متحدہ کے اجلاس میں بھی عالمی رہنماؤں کے سامنے رکھتے ہیں اور اپنے منصوبے سے انہیں نہایت بے شرمی سے آگاہ کرتے ہیں۔ وہ لوگ تو گریٹر اسرائیل کے نظریے پر بہت سختی سے کاربند ہیں وہ تو اپنا سفارت خانہ بھی مصر میں دریا کے دوسری طرف بناتے ہیں کہ دریا کے اس طرف ہمارے نظریے کے مطابق ہماری ریاست ہے اور ریاست کے اندر سفارت خانہ نہیں ہوتا۔ تو اس طرح وہ اپنے ان نظریات میں خاص طور پر گریٹر اسرائیل کے لیے بہت سختی سے عمل پیرا ہیں اور اس کے لیے وہ ہر طرح کی جدوجہد کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ تو اس لیے وہ اس 20نکاتی منصوبے سے اپنے گریٹر اسرائیل کے مقاصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کا مقصد ہرگز فلسطینی ریاست کا قیام نہیں ہے۔ یہ مجھ جیسے سیاست کے ادنیٰ طالب علم کو بھی سمجھ آگیا لیکن ہمارے امت مسلمہ کے رہنما اس بات کو سمجھ نہیں رہے یا سمجھنے کے باوجود آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں لیکن ان کی آنکھیں تب کھلیں گی جب ان کے سر پر پڑے گی۔ اس لیے پہلے ہی انہیں آنکھیں کھول لینی چاہئیں، اپنے دل و دماغ کو حاضر کر لینا چاہیے اور اسرائیل اور امریکہ کے اس گٹھ جوڑ کو بے نقاب کر کے بری طرح ناکام کر دینا چاہیے۔

ضیاء الرحمن ضیاءؔ