چوھدری محمد اشفاق
ووٹ بظاہر تو ایک پرچی کا نام ہے جو مہر لگا کر بکس میں ڈال دیا جاتا ہے لیکن اگر اس کی اہمیت اور اس کے مقصد پر غور کیا جائے تو اس کو سمجھنے میں کافی وقت درکار ہو گا ووٹ ضمیر کی آواز کا نام ہے ایسے ضمیر کا جو اپنے اندر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور اسے اس بات کا بخوبی علم ہو کہ میرے سامنے جو کچھ ہونے جا رہا ہے اس میں کیا صیح اور کیا غلط ہے ووٹ کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اس کی مدد سے ہم نے اپنے حکمرانوں کا چناو کرنا ہوتا ہے ایسے حکمرانوں کا جنہوں نے اگلے پانچ سالوں کیلیئے ہم پر حکومت کرنا ہوتی ہے اپنی بنائی ہوئی پالیسیاں ہم پر لاگو کرنا ہوتی ہیں ان کا کام ہمارے لیئے بہترین وسائل پیدا کرنا ہوتا ہے اور یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب اپنے ضمیر کی آواز کو سامنے رکھ کر کوئی فیصلہ کریں گے ذات برادری اور اپنی انا کو سامنے رکھ کر جو بھی فیصلے کیئے جاتے ہیں وہ ضمیر کی آواز نہیں کہلاتے ہیں ایسے فیصلے انا کی تسکین کہلاتے ہیں انا کی تسکین کو سامنے رکھ کر جو بھی فیصلے کیئے جاتے ہیں وہ درست نہیں ہوتے ہیں ایسے فیصلوں کے تحت ہم غلط افراد کا چناو کر بیٹھتے ہیں جو بعد میں ہمارے لیئے پریشانی اور ندامت کا باعث بنتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ایسے حکمران ہم پر مسلط ہو جاتے ہیں جن کو ڈھونڈنے اور ملنے کیلیئے ہمیں بہت سے مشکل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے حالانکہ حق تو یہ بنتا ہے کہ جن کو ہم اپنے قیمتی ووٹ دے کر عزت دیتے ہیں وہ خود چل کر ہمارے پاس ہمارے مسائل کے حل کیلیئے ہم سے وقت مانگیں لیکن افسوس کہ ایسا ہر گز نہیں ہو رہا ہے وجہ صرف یہ ہے کہ ہم کبھی بھی ضمیر کی آواز پر ووٹ نہیں دیتے ہیں ہمارے زہن اتنے مردہ ہو چکے ہیں کہ ہمیں اچھے اور برے میں کوئی تمیز ہی نظر نہیں آتی ہے ہم اچھوں کو برا اور بروں کو اچھا سمجھنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کر رہے ہیں غلط کام کو صیح اور صیح کام کو غلط قرار دینے میں مکمل مہارت حاصل کر چکے ہیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں ساری عمر گزار دیتے ہیں لیکن نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ ہی ہم کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی ہمارا کچھ بگاڑ سکتا ہے ہم کبھی بھی منصفی سے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے ہیں ووٹ کے درست استعمال کا سوچنا بھی ہمارے لیئے محال ہو چکا ہے صیح استعمال تو بہت دور کی بات ہے ہم ووٹ دیتے وقت کسی بھی امیدوار کے کردار اخلاق اور اس کے چال چلن سے متعلق آگاہی حاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے ہیں کیوں کہ ہمارے سروں پر سیاسی وابستگیاں سوار ہو چکی ہوتی ہیں بس صرف اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ ہمارے سامنے والا امیدوار کس سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہے اس کے علاوہ ہمارے اس کے ساتھ تعلقات کیسے ہیں امیدوار کی حثیت اور اصلیت ماپنے کے لیئے ہمارے پاس صرف اسی طرح کے پیمانے موجود ہیں جن کو استعمال کر کے ہم اپنے اوپر غلط لوگوں کو اپنے اوپر بٹھا لیتے ہیں اعلی کردار کے مالک امیدوار وں کو پرکھنے کیلیئے ہمارے پاس زہنی سوچ ہی موجود نہیں ہے جس دن ہم یہ تہیہ کر لیں گے کہ ووٹ صرف اس امیدوار کو دیں گے جو سب سے اچھا ہو گا جس کا کردار قابل تعریف ہو گا اس دن ہمارے تمام مسائل اور پریشانیاں ختم ہو جائیں گی ہمیں صیح معنوں مین وہ حکمران مل جائیں گے جن کہ ہمیں ضرورت ہے چور چکوں اور بدمعاشوں سے چھٹکارے کا واحد راستہ ہماری سوچ کے ساتھ بلکل جڑا ہوا ہے جب کبھی بھی ہماری سوچ ٹھیک ہو جائے گی اسی وقت اللہ تعالی ہمیں حکمران بھی باکردار عطا فرمائے گا غلط حکمران بھی ہماری بداعمالیوں کا ہی نتیجہ ہوتے ہیں جو عذاب کی صورت میں ہم پر مسلط کر دیئے جاتے ہیں جب ہم چناو کے وقت غلطی کریں گے تو اس کا نتیجہ اگلے پانچ سالوں کیلیئے ضرور بھگتنا پڑے گا لیکن اس کے برعکس جب ہم سوچ سمجھ کر کوئی فیصلہ کریں گے تو پانچ سال ہمارے لیئے بہترین گزریں گے ہمارے منتخب نمائندے ہمارے مسائل کے حل کیلیئے ہم سے مشورے کریں گے ہم سے تجاویز مانگیں گے ہمارے احسان مند رہیں گے اپنے آپ کو ہمارا سمجھیں گے ہمیں اچھے ایماندار اور مخلص حکمرانوں کے انتخاب کیلیئے اپنی سوچ بدلنا ہو گی بصورت دیگر ہمیشہ کی طرح پچھتاوا ہی ہمارا مقدر بنا رہے گا
143