8 مارچ ہر سال خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے دیکھا جائے تو ہر دن خواتین کا دن ہے معاشرے کا کوئی بھی خاندان ایسا نہیں جو عورت کے بغیر چل سکتا ہو۔ اللہ تعالی نے عورت کی تخلیق ہی اس لیے کی کہ وہ گھر کا نظام سنبھال سکے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے گھر کو مکمل کرنے کے لئے اللہ تعالی نے اماں حوا کو تخلیق کیا تاکہ وہ ان کی زندگی میں رنگ بھر سکیں انکا دل بہلا سکیں۔اللہ کے کام میں حکمت ہوتی ہے۔ اللہ تعالی نے ناصرف مرد اور عورت بلکہ ہر چیز کو ایک جوڑے کی شکل میں تخلیق کیا ہے تاکہ اس کائنات کی رنگینی اور خوبصورتی میں سب اپنے حصے کا اضافہ کرسکیں۔ عورت کی تخلیق بھی بغیر مقصد کے نہیں تھی اللہ تعالی نے عورت کی تخلیق سے اس کائنات میں رنگ بھر دیئے۔ گھر اور خاندان کو عورت بناتی ہے بچوں کو سنبھالنا بچوں کی تعلیم و تربیت پرورش کرنا اور ایک معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لیے عورت کو قدرت نے اہم منصب پر فائز کیا ہے۔ ہر سال 8 مارچ کا دن خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے منایا جاتا ہے خواتین کے حقوق اور ترقی کے لئے حکومتوں کی طرف سے کیے گئے اقدامات کا سالانہ کی بنیاد پر تقابلی جائزہ لیا جاتا ہے۔ 2006 سے پہلے خواتین کے حقوق کی صورتحال زیادہ اچھی نہیں تھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خواتین کو اپنے حقوق کے بارے آگہی ملنی شروع ہوئی جس کے نتیجے میں خواتین کے حقوق کے لیے قانون سازی شروع کی گئی۔عورتیں پہلے اپنے اوپر کیے گئے ظلم تشدد کے خلاف آواز نہیں اٹھاتی تھی لیکن اب خواتین نے لب کشائی شروع کی ہے اور ان کے مسائل سے ہر خاص و عام آگاہ ہوگیا ہے۔ اب مختلف این جی اوز اور تنظیمیں حقوق نسواں کے لیے کام کر رہی ہیں عورتوں کی ایک بڑی تعداد اسمبلیوں میں آگئی ہے اور میڈیا بھی اب بہت آزاد ہے۔سیاسی پلیٹ فارم پر بھی اب خواتین کو نمائندگی دی جانے لگی ہے۔ جن دور دراز علاقوں میں خواتین کا ووٹ کاسٹ کرنا ایک جرم سمجھا جاتا تھا اب آگاہی کے بعد وہاں بھی خواتین کو ووٹ کاسٹ کرنے کا حق مل گیا ہے خواتین اب ووٹ کاسٹ کرتی ہیں اور انتخابات میں حصہ بھی لیتی ہیں۔معاشرے میں اپنے حقوق کے لیے جائز مقام کے حصول کے لیے جدوجہد بھی کرتی نظر آتی ہیں تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ تحریک پاکستان سے لے کر اب تک خواتین نے ملک کے لئے بہت کام کیا مس فاطمہ جناح سے لے کر بے نظیر بھٹو تک خواتین کی ترقی کا سفر ہمارے سامنے ہے۔ وومن پروٹیکشن اتھارٹی پلیٹ فارم اور مختلف اداروں کے تعاون سے دیہی علاقوں کی خواتین کو شعور اور آگہی دی جا رہی ہے اور ان کے مسائل کے حل میں خاطر خواہ اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں بھی وومن ایمپاورمنٹ کے لیے بہت سے عملی اقدامات کیے گئے موجودہ حکومت نے احساس پروگرام کے تحت شناختی کارڈ کی شرط لازمی رکھی ہے جس کی وجہ سے دور دراز دیہی علاقوں کی خواتین کے شناختی کارڈ بھی تیزی سے بننے لگے ہیں اورخواتین کی جسٹریشن کا کام بھی تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔پاکستانی خواتین نے تعلیم صحت، زراعت، کاروبار اور سرکاری ملازمتوں میں غرض زندگی کے ہر شعبہ میں اچھی مثالیں قائم کی ہیں اور اپنی جدوجہد سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ لیکن ملک کی ساری خواتین ان سے مراعات سے ابھی پوری طرح فیضیاب نہیں ہوئی ہماری خواتین کو نوکریوں اور تعلیم کے حصول کے لیے دوسرے شہروں میں جانا پڑتا ہے۔ ہوسٹلز میں رہنا پڑتا ہے۔ جہاں ان کے ساتھ صنفی اور جنسی امتیازکا سامنا کرنا پڑتا ہے۔صنفی اور جنسی امتیاز کے خاتمے کے بغیر ملکی ترقی اور استحکام ممکن نہیں۔ خواتین کے لئے قانون سازی میں بیگم رعنا لیاقت علی خان‘فاطمہ جناح اور بشری خالق کی خدمات سے سب اچھی طرح آشنا ہیں۔خواتین کے لیے ان کی خدمات کا یہ سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے اور اب بہت ساریلازء بن چکے ہیں مثلا کریمنل لاء، فیملی لاء، ہراسمنٹ ایکٹ، فیر پریزنٹیشن ایکٹ، وراثت کا قانون سمیت بے شمار بنے ہیں جن سے خواتین کو بہت فائدہ پہنچا ہے اور یہ اسی کا ثمر ہے کہ آج خواتین بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں اور پوری آزادی کے ساتھ بے فکری سے اپنا اور اپنے لاندسن کا پیٹ پال رہی ہیں۔ لیکن صنفی امتیاز، نفرت،ہراسمنٹ کے مسائل سے ہماری خواتین ابھی بھی دوچار ہیں کیونکہ قوانین تو خواتین کے لیے بن گئے لیکن ان پر عملدرآمد ابھی بھی کمزور ہے۔ہمارے نظام انصاف میں بھی ابھی بہت ساری کمیاں اور مسائل ہیں جو ابھی حل طلب ہیں۔کھیل کے میدان میں بھی ہماری خواتین کی نمائندگی بہت کم ہے لیکن جتنی بھی خواتین کھیلوں کے میدان میں بھی آئی ہیں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے اور وہ اپنے خاندانوں کے لیے بلکہ ملک کے لیے فخر کا باعث بنی ہیں۔ خواتین کو ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور ہر شعبے میں ہر میدان میں حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے پھر ہی وہ اپنی صلاحیتوں کو منوا سکیں گی اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل کرسکیں گی۔ خواتین کھلاڑیوں کو بھی مرد کھلاڑیوں کی طرح سرکاری ملازمتوں میں حصہ دینا چاہیے۔ہماری اکثر خواتین کو جو ملازمت پیشہ ہیں کو ملازمتوں کی جگہ پر مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ جیسے خواتین کے لئے الگ واش رومز، ڈے کیئرسینٹر اور نماز پڑھنے کے لئے الگ کمروں کا بہت فقدان ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملازمت پیشہ خواتین کی بنیادی ضروریات کا خیال کرتے ہوئے ان کی ورک پلیس پر یہ تمام سہولیات مہیا کریں۔مسلم معاشرے کی خواتین پر نسل انسانی کی اسلامی خطوط پر پرورش کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے کی بھی دوہری ذمہ داری ہے اس لیے انہیں چاہیے کہ وہ اپنے پردے کا تقدس برقرار رکھتے ہوئے اپنی خاندانی اور پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دیں اور مسلم معاشرے کی صحیح معنوں میں تشکیل کرتے ہوے اپنی تہزیب و ثقافت کی آئینہ دار ثابت ہو ں۔ہماری خواتین بہت بلند حوصلہ باہمت اور بہادر ہیں۔انہوں نے معاشرے میں اپنا مقام بنایا ہے لیکن ابھی انکے بہتر ستقبل کے لیے بہت سے اقدامات باقی ہیں جن سے آنے والے وقتوں میں مزید ترقی اور کامیابیاں ان کا مقدر بنے گی ان شاء اللہ۔
185