210

والدین سے حسن سلوک

آج کہ دور میں ہر جگہ والدین کی نافرمانی اور والدین کہ ساتھ بدسلوکی کرنے والوں کی خبریں اپنے عروج پر ہیں اسلام نے والدین کہ حقوق اور ان سے حسن سلوک کا حکم دیا ہے ماں کہ قدموں تلے جنت اور والد کوجنت کا دروازہ کھا گیا ہے ظاہری بات ہے جنت میں داخلہ والدین کی خدمت،حسن سلوک کہ ذریعہ سے ہی ممکن ہے کوئی شخص ساری زندگی اپنے والدین کی خدمت کرکے ان احسانات کا بدلہ دینا چاہے تب بھی وہ والدین کہ ایک پل کی تکلیف سھنے کاحق ادا نہیں کرسکتا۔بلاشک و شبہ والدین ہی کائنات میں ایسی عظیم ہستی ہیں کہ جن کے اولاد پر بے شمار احسانات ہیں اولاد کو نو ماہ پیٹ میں اٹھانے کی تکلیف، پیدائش اور پھر پچپن میں اسکی تمام تر ذمہ داری اسکی پرورش، بیماری و تندرستی میں انکا خیال رکھنا، لکھائی پڑھائی،تعلیم و تربیت کی ذمہ داری سب والدین کہ ذمہ اسکے ناز و نخرے بھی والدین برداشت کرتے ہیں اس کی فرمائش اپنا پیٹ کاٹ کر والدین ہی پوری کرتے ہیں لیکن جب اولاد جوان ہوتی ہے جوانی کا خون رگوں میں گردش کرتا ہے اولاد کمانے اور نئے خواب دیکھنے کہ قابل ہوتی ہے تو والدین بڑھاپے کی سیڑھیاں اتر رہے ہوتے ہیں انکو اپنی اولاد سے بے پناہ محبت و سکون کی امید ہوتی ہے وہ چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد ہماری دیکھ بھال کریں ہمارا خیال رکھیں جیسا ہم اسکا بچپن میں رکھتے تھے جب یہ بے بس، لاچار اور کمسن تھاکم از کم والدین ہونے کہ ناطے ہی ہمارا خیال رکھ لیں لیکن اولاد میں خون کی گرمی بڑھ جاتی ہے وہ تمام احسانات بھول کر احسان فراموش بن جاتی ہے والدین کی ہر بات پر طرح طرح کی ناراضگی و ناپسندیدیگی کا اظہار کرتی ہے یہی اولاد بعض اوقات والدین سے بدتمیزی و بداخلاقی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی جبکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ وہ والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں ارشاد ربانی ہے”اور آپ کے رب نے حکم دیا کہ اس کی ہی عبادت کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ“ (سورۃ بنی اسرائیل)جس طرح اللہ رب العزت کو تمام جہانوں کا مالک مان کر اس کی عبادت اور حکم کی تابعداری کاماننا ضروری ہے بالکل اسی طرح والدین کے ساتھ حسن سلوک اور عزت و احترام سے پیش آنا بھی ضروری ہے محسن انسانیت رحمت دوعالم حضرت محمد ﷺ نے والدین کی عظمت و اہمیت کو احادیث مبارکہ میں بیان فرما کر اسکی اہمیت میں مزید اضافہ کرتے ہوئے فرمایا”جو نیک اولاد اپنے والدین کو محبت بھری نگاہ سے دیکھے تو اللہ پاک ہر نظر محبت پر اس کے لیے ایک مقبول حج کا ثواب لکھ دیتے ہیں۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ ”اگر یہ شخص سو مرتبہ بھی نظر محبت سے دیکھے تو کیا تب بھی اتنا ثواب ملے گا؟
اس پر رحمۃ للعالمین ﷺ نے ارشاد فرمایا ”اللہ تعالیٰ تمہاری نظر محبت سے دیکھنے سے زیادہ شان رحمت رکھتا ہے۔ایک دوسری جگہ رب العالمین نے فرمایا”جب تمہارے ماں باپ میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو ”اف“ تک مت کہو

ساتھ ہی متصلاً والدین سے بہتر سلوک کاذکربھی فرما دیا،اس کی وجہ یہ ہے کہ خالق کائنات نے زمین بنائی، ہوا، پانی، چاند، ستارے،سیارے،سورج بنائے،بلند و بالا پہاڑ، ہموار زمین، بغیر ستون کہ آسمان، چرند پرند، درندے وغیرہ پیدا کئے،پھر پانی کو بادل کی شکل میں بدل کر بارش برسائی اورپھر انسان کی ساری ضروریات زندگی زمین سے وابستہ کردیں انسان کی پرورش کا ظاہری سبب اس کے والدین کو بنایا۔ظاھری بات ہے جس قدر محنت و مشقت سے انسان کی اولاد پرورش پاتی ہے اسکی نظیر تلاش کرنا مشکل ہے.ماں راتوں کوجاگ جاگ کر بچے کے آرام پر اپناسکون و آرام قربان کرتی ہے اورباپ’ بچہ اور اس کی ماں دونوں کیاخراجات پورے کرنے کیلئے گرمی سردی، محنت و مشقت،دن رات کی پروا کئے بغیر انکی خوشی میں کمی نہیں آنے دیتا،پھر اس کی تربیت میں پورا تعاون کرتا ہے تب جاکر انسان کا بچہ بڑا ہوتا ہے حقیقی طور پر اللہ نے والدین کے دل میں اپنی اولاد کے لیے بے پناہ محبت و شفقت، ایثارو ہمدردی کا جذبہ نہ رکھ دیا ہوتا توانسان کے بچہ کی کبھی تربیت نہ ہوسکتی تھی۔ اب اگر انسان اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں بے یارومددگار چھوڑ دے اور ان کی طرف توجہ نہ دے یا ان سے بدسلوکی، بداخلاقی اور گستاخی سے پیش آئے تو اس سے زیادہ بے انصافی اور ظلم کیا ہوسکتا ہے
اللہ تعالی نے والدین سے حسن سلوک کرنے کا حکم دینے کے بعد فرمایا کہ وہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک جب بڑھاپے کو پہنچ جائے تو تمہیں ان کے حق میں پانچ باتوں کی پابندی کرنی ہے اور وہ یہ ہیں:
پہلی یہ کہ تم انہیں اُف تک نہیں کہنااور اُف سے مراد ہرتکلیف دہ اور ناگوار قول وفعل ہے جس سے والدین کو ذہنی یا روحانی اذیت پہنچے۔لہذا اولاد پر لازم ہے کہ والدین سے نرمی اوراچھے انداز سے بات کرے اور انہیں کوئی بری بات نہ سنائے حتی کہ ُاف تک نہ کہے حالانکہ ہمارے معاشرے میں اف بہت ہی معمولی سی بات ہے سوچئے جب اف کھنے کی بھی اجازت نہیں تو بے ادبی، گستاخی، بداخلاقی، بدسلوکی اور بے عزتی کیسے اجازت ہوگی دوسری بات یہ کہ تم انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور یہ اس لیے کہ والدین کا مزاج بڑھاپے کی وجہ سے عام طور پر چڑچڑا سا ہوجاتا ہے اور ان کی کسی بات پر اولاد کو غصہ بھی آسکتا ہے۔تو اولاد کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ والدین کی باتیں برداشت کرے اور ان کے سامنے الٹی سیدھی باتیں نہ کرے اور انہیں نہ جھڑکے اور نہ ہی ڈانٹ ڈپٹ کرے۔تیسری بات یہ کہ والدین سے بات کروتو ادب واحترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بات کرو۔چوتھی یہ کہ والدین پر رحم اور ترس کرتے ہوئے ان کے سامنے عاجزی اور انکساری کے ساتھ جھک کر رہو بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ جس طرح ایک چڑیا اپنے چوزوں کو اپنے پروں سے ڈھانپ لیتی ہے اور ہرطرح سے ان کی حفاظت کرتی ہے،اسی طرح جب اولاد جوان ہو جائے اور والدین بوڑھے ہوجائیں تو وہ ہردم ان کی حفاظت کرے اوران کے سامنے نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ رہے۔پانچویں بات یہ کہ ان سے اچھے برتاؤ کے ساتھ ساتھ ان کے لیے دعا بھی کرتے رہو کہ اے میرے رب! ان پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے (محبت وشفقت کے ساتھ) بچپن میں میری پرورش کی اس آیت مبارکہ میں والدین کے ساتھ خصوصاً اس وقت حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے جب وہ بڑھاپے کو پہنچ جائیں کیوں کہ اس عمرمیں انکی طبیعت میں بے قراری و بے چینی پیدا ہوجاتی ہے لہٰذا والدین کو اس کیفیت میں اولاد کی طرف سے اچھے رویے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے یہ بات بھی مشاہدے سے ثابت ہے کہ جو شخص والدین پر خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں مزید وسعت و برکت پیدا فرما دیتے ہیں۔ خصوصاً ایسے حالات میں بقدر استطاعت
ضرور خرچ کرنا چاہیے اور ان کے نان و نفقہ کا ضرور خیال رکھنا چاہیے کیوں کہ حدیث مبارکہ میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ”تمہیں اپنے ضعفاء کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہے اور تمہارے ضعفاء کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے۔ (ترمذی شریف)قرآن کریم اور احادیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا اور ان کا ادب و احترام ہر صورت میں ضروری ہے اور ان کے ساتھ بدسلوکی اور بدتمیزی کی کسی حال میں اجازت نہیں۔ بعض گناہ ایسے ہیں جن کا عذاب حکم الٰہی سے آخرت تک موخر کردیا جاتا ہے لیکن والدین کے ساتھ بدسلوکی کرنا اور بدتمیزی سے پیش آنا ایسا سنگین گناہ ہے جس کا عذاب اللہ تعالیٰ کے حکم سے دنیا ہی میں دیا جاتا ہے اور جب تک انسان اپنے اس سنگین جرم کی سزا نہ بھگت لے اس کو موت بھی نہیں آتی۔ احادیث مبارکہ میں اس سنگین گناہ کی مذمت کو بیان کیا گیا ہے ”گناہوں میں سے اللہ تعالیٰ جن گناہوں کو چاہے گا بخش دے گا لیکن والدین کی ایذا رسانی اور نافرمانی کو معاف نہیں کرے گا۔ بلکہ مرنے سے پہلے اس شخص پر اس کا عذاب نازل کرے گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح)والدین کا نافرمان اور ان کے لیے تکالیف اور ایذا کا سبب بننے والا شخص چین سے زندگی نہیں گزار سکتا ہے بلکہ کسی نہ کسی مصیبت و پریشانی میں گرفتار رہتا ہے۔
آپ ﷺ کے زمانے میں ایک صحابیؓ کا انتقال ہونے لگا تو آپ ﷺ ان کو کلمے کی تلقین کرنے لگے،لیکن صحابیؓ کے منہ سے کلمہ نہیں نکل رہا تھا۔حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ان کی والدہ کو بلاؤ، جب ان کی والدہ حاضر ہوئیں تو آپ ﷺ نے پوچھا کیا تم اپنے بیٹے سے ناراض ہو؟والدہ نے عرض کیا جی! میں اپنے بیٹے سے ناراض ہوں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کیا تم پسند کرتی ہو کہ تمہارا بیٹا آگ میں جلے؟ والدہ نے عرض کیا نہیں تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ بس پھر جلدی سے اسے معاف کردو۔ والدہ نے معاف کردیا تو اس صحابی نے فوراً کلمہ پڑھ لیا اور روح پرواز کرگئی اگر کسی نے بے خیالی میں والدین کی نافرمانی کی اور ان کو تکلیف اور ایذا پہنچانے کا سبب بنا اور اسی حالت میں والدین اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور اس کو معافی تلافی کا موقع نہ مل سکا تو اللہ تعالیٰ نے ایسی اولاد کو نصیحت فرمائی ہے کہ وہ اپنے والدین کے لیے دعائے مغفرت کرتا رہے تو ان کو والدین کے فرماں برداروں میں لکھ دیا جائے گا اور انشاء اللہ قیامت کے دن اس گناہ کے بارے میں مواخذہ نہیں کیا جائے گا۔والدین اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہیں۔ اس نعمت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی قدر کی جائے اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا جائے اور ان کی بے ادبی اور نافرمانی سے ہرحال میں پرہیز کیا جائے اللہ ہمیں والدین جیسی عظیم نعمت کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں انکی اطاعت و فرمانبرداری کرنے اور انکے ساتھ ادب و احترام سے پیش آنے کی بھی توفیق عطاء فرمائے آمین

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں