بھی سیاسی کے لیے کارکن ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور وہ اپنی پارٹی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے پر تیار رہتے ہیں اور وہ وقت آنے پر قربانیاں دیتے بھی ہیں قربانیاں دینے والے کارکنوں کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جائے گا
ایسے بیانات تو پارٹی لیڈران دیتے رہتے ہیں لیکن اس کا عملی مظاہر ہ بہت کم دکھائی دیتا ہے اور مخلص کارکنوں کو اکثر رلتے دیکھا گیا ہے 12 اکتوبر1999 کو جب اس وقت کے جنرل مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تو اس کے بعد آہستہ آہستہ تمام بڑے لیڈر مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیار کرتے چلے گئے چند ثابت قدم لیڈر جن میں چوہدری نثار علی خان، راجہ محمد ظفر الحق ، مخدوم جاوید ہاشمی اور دیگر کچھ افراد مسلم لیگ ن میں ڈٹے رہے لیکن ن لیگ کے ورکر ز اپنی جماعت کو چھوڑ کر کہیں اور جانے کا سوچ بھی نہ سکے بہت سارے ضلع ناظمین ،تحصیل ناظمین، یونین کونسل ناظمین مسلم لیگ ق میں شامل ہو گئے لیکن اس کے باوجود ق لیگ ایک عوامی جماعت بننے میں ناکام رہی اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ن لیگ کے چند لیڈر ادھر اْدھر ہوگئے لیکن ن لیگ کے ورکرز و کارکن اپنی جماعت سے ہی وابستہ رہے ا س دور میں ن لیگ کے کا رکنوں کو طرح طرح کی مصیبتیں اور پریشانیاں درپیش آئیں لیکن مخلص کارکن اپنی جماعت کے ساتھ کھڑے رہے اور جنرل مشرف کے خلاف چلنے والی ہر تحریک کا حصہ بنے رہے NA-52 میں بھی مشرف دور میں کچھ ایسے کارکن موجود تھے جنہوں نے ن لیگ کو NA-52 سمیت تحصیل کلر سیداں میں بھی زندہ رکھا کلثوم نواز کی تحریک ہو نواز ،شہباز کی وطن واپسی وکلاء کی تحریک ،یوم سیاہ یا ایٹمی دھماکہ کی سالگرہ حتی کہ ان چند مخلص کارکنوں نے ہر تحریک میں بھر پور طریقے سے شرکت کی اور اس کو کامیاب بنانے کے لیے تمام ضروری وسائل بروئے کار لائے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں پورا پورا دن سپریم کورٹ کے باہر چیف جسٹس کی بحالی کے لیے چلنے والی تحریک میں شامل رہے ہیں انہیں پارٹی بدلنے کے لیے طرح طرح کے لالچ اور دباؤ کے ہربے استعمال کیے گئے لیکن وہ سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے یہاں میں ایسے چند مخلص کارکنوں کے نام ضرور لوں گا ان میں شیخ ندیم احمد ، نمبر دار اسجد محمود نمایاں تھے ان کے علاوہ بھی بہت سارے نام ہیں لیکن مذکورہ دونوں کارکن غریب اور سفید پوش کارکنوں میں شامل ہیں نمبر دار اسجد جو اس فانی دنیا کو چھوڑ چکے ہیں شیخ ندیم احمد کے بارے میں میر معلومات کے مطابق انہوں نے اپنے بچوں اپنے کاروبار کی پرواہ کیے بغیر مسلم لیگ ن کو تحصیل کلر سیداں میں مضبوط سے مضبوط تر بنانے میں مصرف عمل رہے وہ اس دور میں تین دفعہ گرفتار بھی ہوئے اور ان کو میانوالی جیل میں ایک ماہ کے لیے نظر بند بھی رکھا گیا انہوں نے دن رات محنت کر کے اپنے آس پاس کی بستیوں میں ترقیاتی کام مکمل کروائے چند غریب خاندانوں کے بچوں کو نوکریاں بھی دلوائیں وہ 28 مئی کے سلسلہ میں کیک کاٹنا نہ بھولے ہیں جب بلدیاتی الیکشن 2015 کا وقت آیا تو انہوں نے خود حصہ لینے کے بجائے مشہور و معروف صحافی عابد زاہدی کو مسلم لیگ ن میں شامل کر کے اپنی وارڈ کو انتہائی مضبوط کیا اور عابد زاہد ی کو اپنی وارڈ میں سے الیکشن لڑوایا اب عابد زاہدی تحصیل میونسپل کارپوریشن کلر سیداں کے وہ واحد کونسلر ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ 1024 ووٹ حاصل کیے عابد زاہدی جس طرح صحافت میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں اسی طرح سیاست میں بھی ایک خاص مقام حاصل کر چکے ہیں اس کے بعد مخصوص نشستوں کے لیے چناؤ کا وقت آیا تو شیخ ندیم احمد ،عبدالوحید جنجوعہ ، راجہ محمد ارشاد ،چوہدری فرحت اور اشتیاق صدیقی نے کلر سیداں کے لیے لیبر کی نشست کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروائے عام لوگوں کا خیال تھا کہ پارٹی شیخ ندیم احمد ،عبدالوحید جنجوعہ ، چوہدری فرحت اور راجہ ارشاد میں سے کسی ایک کو ٹکٹ ضرور جاری کرے گی لیکن پارٹی کی ہائی کمان کی طرف سے آنے والے پیغام پر شیخ ندیم نے اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے اور ایک دفع پھر ثابت کر دیا کہ وہ اپنی جماعت کے ساتھ مخلص ہیں اور پارٹی کی طرف سے موصول ہونے والی ہدایات کو سرخم تسلیم کرتے ہیں شیخ ندیم احمد نے تو پارٹی کا فیصلہ تسلیم کیا لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتنی زیادہ قربانیاں دینے والے شخص کو اپنی پارٹی محض ایک کاغذ کا ٹکڑا بھی نہ دے سکی ہے اور ان کو ایک با ر پھر قربانی کا بکرا بنا دیا گیا ہے اور ان کی 30 سالہ خدمات کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے اس سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ مخلص کارکن ہمیشہ رلتے ہی رہتے ہیں اور ان کے لیے صلہ صرف طفل تسلیاں ہی ہوتا ہے مخلص ورکرز ہمیشہ قربانی کا بکرا بنتے ہی رہتے ہیں اب سیاست میں پیسے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے تما جماعتیں پرانے اور نظریاتی کارکنوں کو نظر انداز کر کے نئے لوگوں کو سامنے لانے میں مصروف ہیں جس سے مخلص کارکنوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے ان تمام باتوں کے باوجود شیخ ندیم احمد کو اپنی پارٹی سے کوئی گلہ یا شکوہ نہیں ہے اور ان کا اب بھی یہی دعویٰ ہے کہ وہ اپنی جماعت کو کلر سیداں میں مزید مضبوط بنانے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے آج کل ہر طرف مخصوس نشستوں کے لیے دوڑ دھوپ جاری ہے اگر یہ چند مخلص ورکرز اس پارٹی کو زندہ نہ رکھتے دو بلدیات میں کبھی بھی اتنی بھاری اکثریت حاصل نہ ہوتی آج مرکز اور پنجاب میں ن لیگ کی حکومت ہے اب بھی موقع ہے کہ اچھے اور مخلص کارکنوں کو آگے لایا جائے اور ان کو ان کا جائز مقام دیا جائے اس سے ن لیگ مستقبل قریب میں تحصیل کلر سیداں میں مزید مضبوط ہو سکتی ہے ۔{jcomments on}