شہزاد رضا‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
دنیا میں کوئی بھی انسان ناکارہ نہیں ہوتا خدائے ذوالجلال نے ہر انسان کے اندر کوئی نہ کوئی خاصیت رکھی ہوتی ہے جو اس کو دوسروں سے مختلف بنادیتی ہے اس بات کا احساس مجھے اس وقت ہوا جب میں نے قدرتی طور پر مخصوس بچوں کو اسٹیج پر اپنی صلاحیتوں کی بدولت خوبصورت پرفارمنسز پیش کرتے دیکھا دیکھنے میں تو بینائی ‘ بولنے ‘سننے‘ چلنے سے معذوربچے تھے مگر ان کے اندر صلاحیتیں دیکھ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے عام بچوں کی طرح ان کو اچھے برے ‘اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے کی تمیز یہ سب بتا رہی تھی کہ یہ بچے عام بچوں سے بالکل بھی کم نہیں ہیں 2003ء میں راجہ مارکیٹ کلرسیداں روڈ پر نیاز فاؤنڈیشن کے نام سے بننے والا ایک ادارہ جو اب تک اپنے مقاصد میں مکمل کامیاب رہا ۔اس ادارے میں معذور بچوں کو نہ صرف پڑھنا لکھنا سکھایا جاتا ہے بلکہ ہنر مند بھی بنایا جاتا ہے اس سلسلے میں نیاز فاؤنڈیشن کے بانی ایاز نیازی پنڈی پوسٹ نے نشت کا اہتمام کیا اس دوران ایاز نیازی نے بتا یا کہ نیاز فاؤنڈیشن کی بنیاد 2003میں رکھی گئی تھی اس کو بنانے کا مقصد یہ تھا کہ ایسے تمام بچے جو معذوری کی وجہ سے گھروں میں بیٹھے ہیں اور ان کی زندگیاں تباہ ہو رہی ہیں ان پڑھنے لکھنے کا انتظام کیا جائے تاکہ وہ معاشرے میں باعزت شہری کے طور پر زندگی بسر قابل ہوسکے ان کا کہنا تھا جب ادارے کی بنیاد رکھی تو نیاز فاؤنڈیشن کے اکاؤنٹ میں صرف چالیس ہزار کی رقم موجود تھی اس کے بعد مجھے خود کو نہیں معلوم کہ چند ماہ میں اتنی بڑے بلڈنگ کیسے کھڑی ہوگئی اور2005میں ہم نے باقاعدہ کلاسز کا اجراء کر دیا الحمد اللہ اب تک 222بچوں نے نیاز فاؤنڈیشن میں داخلہ لیا اس وقت ادارے میں 170کے قریب بچے اور بچیاں پڑ رہے زیر تعلیم ہیں میٹرک سے فارغ ہونیوالے بہت سے بچے الحمد اللہ اپنے گھروں میں کفالت کی ذمہ داری لیے ہوئے ہیں ایاز نیازی نے بتایا کہ اس وقت ادارے میں پڑھنے والے بچوں کو پلمبر اور الیکٹریکل کے کورسز کروائے جارہے ہیں اور بچیوں کو سلائی کڑھائی کا کام سکھا یا جارہا ہے اور بہت جلد آٹو مکینک کا کورس بھی شروع کر وا دیا جائے گا۔ ادارے میں جتنے بھی اخراجات آتے ہیں نیاز فاؤنڈیشن اس کو خود کو برداشت کرتی ہے سکول میں پڑھنے والے بچوں اور بچیوں کو یونیفارم‘کتابیں اور پک اینڈ ڈراپ فراہم کیا جاتا ہے تاکہ ان کو آنے جانے میں کوئی دشواری نہ ہو میرے اند ر یہ جذبہ موجود ہے کہ جن بچوں کو ہم بوجھ سمجھ رہے ہیں یہ کسی کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو جائیں تاکہ ان کو معاشرے برابری کی سطح پر عزت اور وقار ملے ۔نیاز فاؤنڈیشن انگلینڈ میں رجسٹرڈ ہے جس میں میرے اپنے ہی خاندان کے افراد چیریٹی کرتے ہیں جس کے تحت یہ ادارہ چلایا جارہا ہے ۔پاکستان میں موجود فیاض قریشی نے میرا بہت ساتھ دیا کیونکہ میں بوجہ بزنس انگلینڈ ہوتا ہوں ادارے کو یہی چلاتے ہیں آٹھ ٹیچرز ہیں جو بچوں میں علم کی شمع بانٹ رہی ہیں ۔والدین کے نام پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ والدین کا تعلق ناگزیر ہے میری والدین سے صرف یہ گزارش ہے کہ وہ بچوں کو اچھے طریقے سے یونیفارم پہنا کہ بیگ تیار کر کے سٹاپ تک چھوڑ دیا کریں باقی کی ذمہ داری ادارے کی ہے ان بچوں کو مت ڈانٹا کریں یہ بچے پھول جیسے ہوتے ہیں ان کو صرف پیار کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ اپنی صلاحیتیں دکھانا شروع کر دیتے ہیں ایا ز نیازی نے بتایا کہ بہت سے بچے مجھ سے مسلسل سوشل میڈیا کے ذریعے رابطے میں رہتے ہیں اور سکول کی خیر خبر دیتے رہتے ہیں ان کے میسج دیکھ کر میرا دل خوش ہو جاتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ میرا ادارہ بنانے کا مقصد پورا ہو گیا اسی سکول سے پڑھ کر جانیوالے آٹھ بچے اور بچیاں ایسے ہیں جن کی آپس میں شادیا ں بھی ہوچکی ہیں میری صرف اتنی ہی گزارش ہے کہ ہماری آواز کے ساتھ آواز ملائی جائے اور روات ‘ کلرسیداں میں موجود ایسے معذور بچے جن کی زندگیاں گھروں میں گزر رہی ہیں ان کو ہمارے پاس لائیں ہم ان کو اچھا شہری بناکر آپ کو دیں گے۔
113