259

نکاح ثانی سر دردی یا خوشی

زرتاشیہ مہوش مغل
بغیر کسی دینی کتاب،مفتی،ملا یا بزرگ کی نصیحت کے اگر آپ کے عقائد مضبوط ہوں تو یہ شاید رب کا خاص کرم ہوتا ہے کہ دور اندیشی اور حقیقت پسندی جیسے وصف سے آپ کو نوازا جا رہا ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے کبھی کبھی معاشرے کی تلخ حقیقتیں دباؤ اور ثقافت آپ کے مثبت نظریات کو کُچل دیتی ہے مگر جب نفس لوامہ آپ کا ساتھ دے رہا ہو تو وہ آپکو چھوڑتا ہے نہ آپ میں اسکو چھوڑنے کی سکت ہوتی ہے کیونکہ وہ آپکی روح میں رچا بسا ہوتا ہے آج بات کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں مرد دوسری شادی کی خواہش اور موجودہ بیوی کے تلخ رویے کے باوجود شادی نہیں کر پاتا اور پھر ہماری مشرقی لڑکیاں شادی شدہ مرد کو شک کی نگاہ سے کیوں دیکھتی ہے وہ شادی کی آفر پر بے یقینی کا شکار کیوں ہوتی ہیں آئیے اس پر تفصیل سے بات کرتے ہیں یہ بات شادی شدہ خواتین کو ذہن نشین کر لینی چاہیے اچھا صالح‘دولت مند اور اعلی تعلیم یافتہ شوہر محض ایک عورت کی جاگیر نہیں جب صرف ایک عورت اس پر قبضہ جما کر بیٹھ جاتی ہے تو کئی کنواری لڑکیاں اچھا رشتہ نہ ملنے کی وجہ سے بھائیوں اور ماں باپ کے گھر اپنی عمر گزار دیتی ہیں ان بیواؤں کا کیا قصور ان طلاق یافتہ کا کیا قصور جو اعلی صفات کے حامل مرد کو حاصل نہیں کر پاتی بہت ساری لڑکیاّں یا عورتیں غلط راہوں میں پڑ جاتی ہیں ایک پڑھی لکھی عورت کسی بھی طرح اپنے سے کم درجے والے سے نکاح نہیں کر سکتی کیونکہ ازدواجی زندگی میں وہ احساس کمتری کا شکار ہوجائے گی اور مرد کو وہ فضیلت نہیں بخشے گی جو مقام و مرتبہ بحیثیت زوجہ اسکو دینا چاہیے کیونکہ ایک اعلی تعلیم یافتہ اچھی ذات اور خاندانی مرد کسی اپنے سے کم درجے والی،کم حیثیت،کم پڑھی لکھی یا صلاحیتوں میں کم عورت سے نکاح کر سکتا ہے کیونکہ اس نے بعد میں شوہر کے تابع ہونا ہوتا ہے اور یوں مرد کی فضیلت برقرار رہے گی باشعور مرد سے شادی کرکے عورت کسی بھی طرح احساس کمتری کی شکار نہیں ہوگی رب تعالیٰ جب انسان کو اس دنیا میں بھیجتا ہے اسکے رزق کا تعین بھی وہی کرتا ہے غرض ہر ایک چیز کی تقسیم پہلے سے ہو چکی ہوتی ہے لہذا اس پر عورت کو کسی قسم کا کوئی بغض یا حسد نہیں رکھنا چاہیے کہ دولت کا بٹوارہ ہو جائے گا یا میں خالی ہاتھ رہ جاؤں گی یا شوہر کی محبت آدھی ملے گی جیسے عمومی طور پر عورت فطرتاً اپنے گھر ‘اولاد‘شوہر کو اپنا قیمتی اثاثہ سمجھتی ہے مگر مرد کو سمجھنا چاہیے کہ ایک بیوی آپ سے لڑتی ہے اور بیویاں آپ کی خاطر لڑتی ہیں میری اپنی کچھ دوستوں سے بات ہوئی جنمیں کچھ عالمہ بھی ہیں دین کے معاملے میں وہ مجھ سے بہت آگے ہیں عبادت گزاری‘پردے کی پابندی وغیرہ میں ناچیز انکے سامنے رائی کا دانہ بھی نہیں ہوں میں نے انکو شادی شدہ مرد سے شادی کرنے کی دعوت دی آپ سمجھ لیں مکمل تحریک چلائی مجھے یہ لگ رہا تھا شاید ان کو کوئی Insecurity ہوگی مگر جب اُنکی آرا جانی تو معلوم پڑا وہ اپنی پسندیدہ ترین چیز شیئر ہی نہیں کر سکتی اس بات کے بعد بحث بنتی ہی نہیں لاجک سے سمجھایا مگر بے سود تھا.چند ایک کی رائے حتمی رائے نہیں ہوتی, میرے نزدیک دور حاضر کی لڑکی جو کسی حد تک اگر شادی شدہ مرد سے نکاح کرنے کا سوچتی ہے کہ ایک ویل سیٹلڈ تعلیم یافتہ شخص جو سہولیات بھی مہیا کر سکتا ہے وہ اس سے شادی کر سکتی ہے مگر سب سے زیادہ وہ جس خوف میں مبتلا ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اسکی سوتن اور سوتن کے میکے والے جن سے انکو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے جادو ٹونہ‘قتل کروا دینا یا اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر کے دوسری بیوی کو کسی نہ کسی طریقے سے بھگانہ رواج بن چکا ہے بلکہ اسکو برصغیر کا خود ساختہ قانون کہا جائے تو درست
ہوگا یہاں تک کہ ایک بیوی اپنی سوتن کی جان لینا بھی جائز سمجھتی ہے اب ان تمام معاملات میں ایک سمجھدار اور میچیور شخص ہی چیزوں کو سمجھ سکتا ہے اور دونوں،تینوں اور چاروں ازواج کو برابری کے درجے‘مقام‘عزت‘محبت اور حقوق دے سکتا ہے ڈرپوک اور برائے نام قسم کے مرد نہ تو بیویوں میں برابری کر سکتے ییں نا ہی مسائل پر قابو پا سکتے ہیں شروع میں ہار مان لیتے ہیں یا تو مکمل جھکاو پہلی بیوی کی طرف ہوجاتا یا دوسری کی طرف جھکاو اور اس شکست کا شکار عورت ہوتی ہے مرد کو کوئی فرق نہیں پڑتااگر مرد صحیح معنوں میں برابری کرے اور حقوق دے تو ازواج کو نہ تو کوئی خطرہ ہو نہ شکوک شبہات جنم نہ لیں.مرد کو دوسری بیوی کو مالی طور پر اتنا ہی secure کرنا چاہے,جتنا کے پہلی کو کیونکہ اگر خاوند کی اچانک موت واقع ہوتی ہے تو اسکے پاس تو رہنے کا ٹھکانہ بھی نہ ہوگا آخر وہ بھی ایک عورت ہے زیادہ تر ایسا ہوتا ہے شوہر کی پہلی اولاد اور سوتن مل کر ظلم و زیادتی کرتی ہے یوں جو دیکھنے والی لڑکیاں ہیں ان کا بھی اعتبار اُٹھ جاتا ہے میں یہاں لالچی‘خود غرض,بدکردار اور دولت کی ہوس کی ماری ہوئی عورتوں کی بات نہیں کر رہی مخلص لڑکیوں کی بات کر رہی جنمیں بیوہ‘طلاق یافتہ اور وہ لڑکیاں ہیں جنکو معیاری رشتے نہیں ملتے جو کسی اچھے شوہر کی متلاشی ہوتیں ہیں آخری بڑی وجہ ہے کہ کچھ مرد ہوس کے پجاری ہوتے ہیں دوسری شادی کے نام پر لڑکیوں کو ورغلا کر کچھ دن استعمال کر کے چھوڑ دیتے ییں جنکے کالے کرتوتوَں کی وجہ سے لڑکی کے والدین شادی شدہ شخص سے اپنی بیٹی کا نکاح کرنا مناسب نہیں سمجھتے بلکہ وہ شادی انکو بربادی لگتی ہے.یہ بات درست ہے کہ جہاں عورت خطرہ محسوس کرتی وہاں مرد کو بھی اس بات کا خطرہ لاحق ہوتا ہے کہ اگر میں نے بیوی کو مالی طور پر مضبوط کر دیا یا اسکے نام کوئی جائیداد کروا دی تو کسی لالچ میں آکر کہیں چھوڑ نہ جائے.ان باتوں کو آپ نکاح سے پہلے سوچیے،پرکھیے اور پھر فیصلہ لیجیے مرد اور عورت دونوں کو ایک دوسرے کو سمجھ کر سچائی سامنے رکھ کر پھر زندگی گزارنے کا فیصلہ لینا چاہیے اپنے اوپر خول نہیں چڑھانا چاہیے سچ بول کر وقتی طور پر ہار جانا بہتر ہے بجائے اسکے کہ آپ جھوٹ بول کر جیت کر چند دن کی خوشیاں منائیں اور کسی کی زندگی تباہ کریں اور عورتوں کو میرا پیغام ہے اگر آپ خاوند کی واحد بیوی ہیں مگر وہ آپ کے ساتھ مخلص نہیں تو کیا فائدہ اور اگر شوہر دوسری شادی کرنے کے بعد بھی آپ کے ساتھ مخلص ہے تو آپکو نقصان کوئی نہیں جو شخص آپکا ہے وہ آپکا رہے گا جو نہیں تَھا وہ صرف آپکے پاس ہو کر بھی آپکا نہیں ہوسکتا گرل فرینڈ جیسے حرام رشتے برداشت کرنے سے بہتر ہے اسے اجازت دے دیں تاکہ وہ لونڈیاں نہ پالے البتہ بیویاں بھلے پال لے آخر میں دریا کو کوزے میں بند کرنا چاہتی ہیں انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات ”صلاحیتوں سے بھر پور بیوی اپنے شوہر کی جاگیر ہوتی ہے،مگر ایک باشعورباوقار،بارعب شخصیت کا حامل برسر روزگار اور خوش اخلاق شوہر محض ایک بیوی کی جاگیر نہیں ہوتا”عرب ممالک میں دوسری تیسری شادی میں عورت کو مکمل سپورٹ کیا جاتا ہے اس لیے وہاں شادیوں کا رواج عام ہے آپ بھی اس رواج کو عام کریں دین و دنیا میں سرخرو ہوں آج کی تحریر اچھی لگی تو فیڈ بیک ضرور دیجیے گا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

نکاح ثانی سر دردی یا خوشی“ ایک تبصرہ

  1. اس طرح کی تحریر والوں کو پزیرائی لازمی ملنی چاہئے۔ تا کی ان کی حوصلہ افضائی ہو سکے
    بہت ہی اعلی تحریر ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں