147

نوجوان ملازمتوں کی بجائے کاروبار پر توجہ دیں

وطن عزیز پاکستان میں ملازمتوں کے لیے دو اہم شعبے ہیں ایک شعبہ سرکاری ہے جس میں نیم سرکاری بھی شامل ہے کیونکہ اسے بھی سرکاری یا اس کے قریب تر سمجھا جاتا ہے جبکہ دوسرا شعبہ پرائیویٹ شعبہ ہے۔ سرکاری شعبے کے بارے میں عوام الناس کا نقطہ نظر بہت اچھا ہے وہ سرکاری ملازمت کو بہت زیادہ پسند کرتے ہیں جبکہ پرائیویٹ شعبے کو عام طور پر اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ جو سرکاری ملازمت کر رہا ہو اسے تو برسرروزگار سمجھا جاتا ہے جبکہ پرائیوٹ ملازمت والا اگرچہ سرکاری ملازم سے زائد تنخواہ وصول کر رہا ہو اسے بے روزگار ہی خیال کیا جاتا ہے اور پرائیویٹ شعبے میں ملازمت کرنے والے سرکاری ملازمت کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ سرکاری ملازمت کو اللہ کی طرف سے روزی ملنا خیال کیا جاتا ہے اور اس پر شکر بھی ادا کیا جاتا ہے جبکہ پرائیویٹ ملازمت کو تو فضول خیال کر کے ہمیشہ ناشکری کے الفاظ ہی ادا کیے جاتے ہیں۔
اس کی دو وجوہات ہیں پہلی یہ کہ ہمارے عوام زیادہ تر کاہل اور سست ہیں اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ آسان سا کام ہو اور بس بیٹھے بٹھائے اتنی آمدن ہو جائے جس سے گھر کا نظام چلتا رہے اس کے لیے ظاہر ہے کہ سرکاری ملازمت ہی بہترین ہے۔ کیونکہ اس میں کافی مراعات ملتی ہیں، سب سے بڑی رعایت تو یہ ہے کہ یہ ملازمت مستقل ہوتی ہے اور ساٹھ سال کی عمر تک کوئی ان ملازمین کو اپنے کسی ذاتی مقصد کی خاطر ملازمت سے فارغ نہیں کر سکتا مگر یہ کہ کوئی ملازم سنگین نوعیت کا جرم یا غلطی کا ارتکاب کر بیٹھے، اس کے علاوہ ان کی ملازمت مقررہ میعاد تک بلا روک ٹوک جاری رہتی ہے۔ سرکاری ملازمت کی یہی خوبی ہمارے اچھے اچھے پڑھے لکھے، ذہین، محنتی اور باصلاحیت نوجوانوں کو اپنی طرف اس طرح کھینچ لیتی ہے کہ انہیں اپنی صلاحیتوں کے زنگ آلود ہونے، اپنی محنت کے بل بوتے پر ترقی کرنے اور اپنی ذہانت کی وجہ سے دولت اور شہرت حاصل کرنے سے غافل کر دیتی ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں شعور کی کمی ہے انہیں یہ نہیں معلوم کہ اگر وہ پرائیویٹ شعبے میں محنت کریں تو وہ سرکاری ملازمت سے کہیں زیادہ آمدن اور سکون پا سکتے ہیں۔ اپنا کاروبار کر لیں یا آن لائن فری لانسنگ وغیرہ کے ذریعے کام کریں تو اتنی آمدن بھی حاصل کر سکتے ہیں جنتی سرکاری ملازم کئی سال لگا کر نہیں کر سکتا۔ لیکن نوجوانوں کو یہ چیز سکھانے اور سمجھانے والا کوئی نہیں ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام بھی ایسا ہے جس میں ایسا کچھ بھی نہیں سکھایا جاتا بلکہ وہاں تو صرف رٹے لگوا کر نوکر ہی تیار کیے جاتے ہیں جو ڈگریاں لیے نوکریاں تلاش کرنے میں اپنی عمر اور صلاحیتیں گنوا دیتے ہیں۔ اب ورچوئل یونیورسٹی (Virtual University)نے نوجوانوں کو فری لانسگ (Freelancing)سکھانے کے لیے پروگرام تو شروع کیے ہیں لیکن وہ بھی نہایت محدود ہیں۔ مستقل طور پر فری لانسگ کرنے والے نوجوان گھر بیٹھے لاکھوں روپے ماہانہ کما رہے ہیں۔
پرائیوٹ شعبے میں کام کرنے والے نوجوان حکومت پر بھی بوجھ نہیں بنتے اور اپنے اہل خانہ پر بھی۔ بلکہ وہ تو ملک کے لیے ذرمبادلہ کماتے ہیں۔ حکومت کو انہیں نوکریاں نہیں دینی پڑتیں، جس کی وجہ سے سرکاری خزانے پر بوجھ نہیں پڑتا

اگر حکومت نوجوانوں کے لیے اپنے کاروبار اور فری لانسنگ کی تربیت کا انتظام کر دے تو اس سے ملک کو بہت فائدہ ہو گا۔
اس کے علاوہ نجی شعبے میں نوجوانوں کے جو مسائل ہیں انہیں حل کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر فری لانسنگ کے شعبے میں نوجوان کئی طرح کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ کئی کمپنیاں پاکستان میں اپنی سروسز نہیں دے رہیں۔ جیسے آن لائن پیمنٹ کی کمپنی پے پال (Paypal) کی سروسز پاکستان میں میسر نہیں ہیں اور پاکستانی نوجوان ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ اسی طرح اور بھی کئی سروسز ہیں جو بھارتی نوجوانوں کو تو حاصل ہیں لیکن پاکستانی نوجوانوں کے لیے بہت سے مسائل ہیں۔پاکستان کے دیگر لا تعداد نوجوان اس شعبے میں کام کرنا چاہتے ہیں لیکن سہولیات کے فقدان اور مسائل کی زیادتی کی وجہ سے وہ کام نہیں کر پارہے۔ اگر ان کے مسائل حل کیے جائیں اور انہیں سہولیات فراہم کی جائیں تو وہ سرکاری خزانے پر بوجھ بھی نہیں بنیں گے اور ملک کے لیے بہت زیادہ زرمبادلہ بھی کمائیں گے۔ نوجوانوں کو خود بھی اس شعبے کی طرف توجہ دینی چاہیے اور ملازمتوں کی تلاش کی بجائے کوئی ہنر چاہے وہ آن لائن ہو سیکھ کر اپنا کام شروع کر دینا چاہیے، ابتداء میں تھوڑی سی محنت اور صبر تو ضرور کرنا پڑتا ہے لیکن جب رفتہ رفتہ کام چل نکلتا ہے تو اچھی خاصی آمدن اور آرام بھی ملتا ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں