شاہد جمیل منہاس/میرادوست عثمان اس دن مجھے بچوں کی طرح بتارہاتھاکہ میرے ابوکے پاؤں میں کچھ دن قبل موچ آگئی تھی اورآج کل وہ کافی تکلیف میں ہیں۔کل یوں ہواکہ وہ ہم سب کوبتائے بغیرسوداسلف لینے بازارچلے گئے۔مجھے فکرہوئی کہ وہ کافی دیرپہلے گھرسے نکلے ہیں اورلیٹ ہورہے ہیں۔میں ان کاپتہ کرنے کے لئے جب ان کی طرف گیاتووہ واپس گھرکی طرف پلٹ رہے تھے۔میں نے ان سے درخواست کی کہ آپ نے مجھے بتادیاہوتا،آپ کاپاؤں بھی خراب ہے آپ اوراولادکے بھی ہوتے ہوئے یہ کام کررہے ہیں۔کہنے لگے کہ بیٹاآپ کو اس لئے نہیں جگایاکہ آپ اپنے ادارے میں سارادن لیکچرزدینے کے بعد گھرآئے تھے۔میں نے مناسب نہیں سمجھاکہ آپ کوتکلیف دوں۔اس لمحے میں نے دیکھاکہ عثمان کی باتوں سے اورآنکھوں میں ایک جان نچھاورکرنے والے باپ کے لئے محبت اورہمدردی چھلک رہی تھی۔ میں سمجھتا وں کہ یہی اسلامی معاشرے کاطرہئ امتیازہے۔اس گفتگوکے دوران عثمان نے مجھے یہ بھی بتایاکہ میرے والدصاحب نے اپنے بچوں کوکبھی بھی”تم“یا”تُو“کہہ کرمخاطب نہیں کیا،ہمیشہ آپ کہہ کرمخاطب ہوتے ہیں اوراخلاق کے میدان میں ہردفعہ بازی لے جاتے ہیں۔اتنی لمبی چوڑی تمہیداورمثال کامقصدیہ تھاکہ ہم اس خطے کی خوبصورت روایات اورہمدردانہ جذبات کااحاطہ کرسکیں۔تاریخ گواہ ہے کہ والدین اپنے پیٹ پرپتھرباندھے کئی کئی روزبھوک وپیاس میں گزاردیتے ہیں لیکن اپنی اولادکوکبھی بھوکاپیاسانہیں دیکھ سکتے۔ہمارے اس معاشرے کی ایک زندہ مثال یہ بھی ہے کہ اولادکی غیرموجودگی میں اگربارش شروع ہوجائے تواس دھرتی کی مائیں گھرکی دہلیزپرکھڑی ہوجاتی ہیں اورکہنے لگتی ہیں ”دیکھانا،چھتری لے کرنہیں گیا۔“اوراگردھوپ تیزہوجائے توبھی ایسے لگتاہے کہ جیسے کوئی بہت بڑی اذیت سے گزررہاہو۔رشتوں کی اس خوبصورت لڑی میں بھائی،بہن،بیٹا،بیٹی،میاں،بیوی غرض ہررشتہ اپنی مثال آپ ہے۔ہمدردی کاعنصراللہ تعالیٰ نے ہرذی روح کے اندررکھاہے اوردنیاکے کونے کونے میں بسنے والے انسانوں کے دلوں میں پیارومحبت کے جذبات رب کائنات نے پیوست کررکھے ہیں جن سے کسی صورت بھی انکارنہیں کیاجاسکتا۔لیکن اسلامی معاشرے میں اگران رشتوں کی قربانیوں کاجائزہ لیاجائے تومعلوم ہوگاکہ ایک دوسرے کے لئے جان تک قربان کرنے کوترجیح دی جاتی ہے۔حالات وواقعات کامطالعہ اگربغورکیاجائے توپتہ چلتاہے کہ صحابہئ کرامؓاپنے بوڑھے والدین کی چارپائی کے پاس پانی کاپیالہ لے کرکھڑے رہتے کہ کہیں میری ماں یاوالدنے اگرپانی مانگ لیااورمیں سویارہاتوقیامت کے روزمجھے جواب دہ ہوناپڑے گااُس وقت خدائے بزرگ وبرترکے سامنے میں کیامنہ لے کرجاؤں گا۔الحمدللہ!ہم آخری نبیﷺکی امت سے ہیں لہذا ہمارے خون میں یہ روایات خون کی روانی کے ساتھ رواں دواں ہیں۔مجھ جیسے گناہ گارانسان کوبھی اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق دے رکھی ہے کہ اپنے رشتوں کے ساتھ ہمدردی کاعنصرموجودہے۔آج کے اس افراتفری کے دورمیں بھی میں نے بے شماروالدین کودیکھاکہ وہ بڑھاپے کی حالت میں اپنی اولادکوہسپتال لے کرجارہے ہیں اوردن رات گرمی سردی میں ان کے علاج کے لئے دوڑدھوپ کرکے سکون محسوس کرتے ہیں۔اوراس ہنگامہ آرائی میں نوجوان اولادکواپنے والدین کاسہارابنتے ہوئے دیکھاگیاہے جس سے اس دلفریب منظرکودل ودماغ میں سمالینے کوجی چاہتاہے۔لیکن اس تصویرکاایک بدنماپہلویہ بھی ہے کہ آج ہی کانوجوان بے راہ روی کاشکاربھی نظرآتاہے۔اخبارات یانیوزچینلزکاجائزہ لیں تومعلوم ہوتاہے کہ بہت سے ناخلف نوجوانوں نے اپنے والدین کے ساتھ انتہائی براسلوک کیاجس سے یہ زمین لرزتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔اس سرزمین پربہت سے والدین کے ساتھ جوسلوک روارکھاجاتاہے وہ تاریخ میں ان مٹ نقوش چھوڑے جارہاہے۔صرف ایک عورت یعنی بیوی کی خاطرجب ایک نوجوان اپنی ماں کوذلیل کرتاہوانظرآتاہے توزمین کانپ جاتی ہے۔جوان بیٹاجب جوانی کے نشہ میں اپنے بوڑھے والدین کومنہ توڑجواب دیتاہے تویہ دھرتی اورزمین شرم کے مارے لرزجاتی ہے۔قہروغضب کی اس دنیامیں فرعونیت کاپرچارکرنے والے شایدیہ بھول جاتے ہیں کہ یہ دنیاعارضی ہے۔یہ تومکڑی کاجالاہے جوبس تیزہواکامنتظرہے۔اوراس کے بعدہم سب کاٹھکانہ جنت یاجہنم میں سے کوئی ایک ہوگا۔یہ دنیاایک خواب ہے جوکسی وقت بھی ٹوٹ سکتاہے اورپھراس کے بعد عذاب یاثواب میں سے کوئی ایک ہمارے حصے میں آکررہے گا۔اللہ سے دعاہے کہ اس دھرتی کی نوجوان نسل کواپنے تمام رشتوں کااحترام کرنے والابنادے تاکہ آنے والی نسلیں احترام آدمیت سے آشناہوں۔ آمین۔آج ہم سب مل کراپنے اپنے اعمال کابغورجائزہ لیں اوران خوبصورت رشتوں کے حوالے سے خوداحتسابی کے عمل کاآغازکریں تاکہ ہمیں بھی معلوم ہوسکے کہ ہم کدھرجارہے ہیں۔اس کاآسان طریقہ یہ ہے کہ عین اسی لمحے گردن نیچے کرکے ذراسوچئے کہ آج کل یاچنددن قبل تک ہمارے عزیزواقارب ہم سے خوش تھے یانالاں تھے۔اورپھریہ بھی معلوم کریں کہ اس کی وجہ آپ کااپنا کردارہے یاکچھ اور۔اگرآپ ہی اس پریشانی اوربدگمانی کاسبب ہیں توابھی وقت ہے پلٹ آئیں اور فوراََ اُنہیں ڈھونڈ کر معافی مانگ لیں ورنہ یہ محبت والے اورمعصوم رشتے دنیاوآخرت دونوں میں آپ کوسکون سے نہیں رہنے دیں گے۔چلیں آئیں آج ہم سب عثمان بھٹی جیسابننے کی کوشش کرتے ہیں جووالدین کی باتیں کرتے کرتے اپنی آنکھیں نم کرلیتاہے،یہ سوچ کرکہ انسان اپنی زندگی میں ایک دفعہ بچپن میں اورپھرایک دفعہ بڑھاپے میں معصوم ہوجایاکرتاہے۔جاتے جاتے ایک نظراپنے والدین پرڈالتے جائیں اورغورکریں تومعلوم ہوگاکہ آج انہیں اس ڈھلتی شام کے لمحات میں اپنی اولادکی کتنی ضرورت ہے۔
238