137

نوجوانوں کے ساتھ ناروا سلوک/ضیاء الرحمن ضیاءؔ

نوجوان کسی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں، نوجوان ہی کسی قوم کے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں،یہی قوم کا حقیقی ورثہ ہوتے ہیں،نوجوانوں کی بدولت ہی قومیں ترقی کرتی ہیں، اگر کسی قوم کے نوجوان متحرک اور باصلاحیت ہوں تو وہ قوم ترقی کی انتہاؤں تک پہنچ جاتی ہے اور اگر نوجوان سست ہو جائیں تو قوم پستی میں گرتی چلی جاتی ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ آج تک جب بھی کسی قوم میں انقلاب آیا اس میں نوجوانوں کا بھرپور ہاتھ رہا، جب بھی کسی قوم نے ترقی کی اس میں نوجوانوں نے پورا حصہ ڈالا۔ باصلاحیت اور مستعد نوجوان جب کسی کے ساتھ کھڑے ہو جائیں تو اس کی ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا یہ اگر کسی سیاسی جماعت کے ساتھ ہو جائیں تو اسے حکومت تک پہنچا کر چھوڑتے ہیں، اگر کسی ادارے کی طرف توجہ دیں تو وہ اپنا نام پیدا کر لیتا ہے۔ نوجوان ہی قوم کا وہ سرمایہ ہیں جن کی وجہ سے قومیں ترقی کی منازل طے کرتی ہیں۔ نوجوانوں کو باصلاحیت بنانے کے لیے بزرگوں کو کوشش کرنی پڑتی ہے ، قوم کے رہنماہی نوجوانوں کو صحیح سمت دکھا سکتے ہیں، ان کے لیے ہر میدان میں بہترین مواقع پیدا کر کے ان کا حوصلہ بڑھا سکتے ہیں، ملک و قوم کی ترقی کے لیے ان کی رہنمائی کر سکتے ہیں مگر ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں نوجوان احساسِ کمتری کا شکار ہیں ، نوجوان باصلاحیت تو بہت میں مگر ان صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے مواقع میسر نہیں ہیں،نوجوانوں میں مایوسی بڑھتی جا رہی ہے ، ان کے لیے نہ تو تعلیم حاصل کرنے کا صحیح ماحول ہے اورنہ ہی روزگارکے مواقع ہیں۔ اگر تعلیم حاصل کر بھی لیں تو ڈگریاں اٹھا کر گھومتے رہتے ہیں اور ملازمت نہیں ملتی جس کی وجہ اب نوجوان تعلیم حاصل کرنے سے بھی کترانے لگے ہیں اور اس تمام صورتحال کے ذمہ دار سرکاری اداروں میں بیٹھے نااہل افسران ، نوجوانوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے والے سیاستدان اور زیادہ فیسوں کے لالچی تعلیمی اداروں کے مالکان ہیں۔پھر اس تمام صورتحال کے علاوہ جب کو ئی آسامی خالی ہوتی ہے تو غریب اور بیروزگار نوجوانوں سے فیسیں لے کر انہیں ٹیسٹ اور انٹرویو کے لیے بلایا جاتا ہے، پھر وہاں ان کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیا جاتا ہے، وہاں کا عملہ ان کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آتا ہے اور وہ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ یہ پڑھے لکھے نوجوان ہیں ان کی کچھ تو عزت کریں مگر یہ احساس ہی ختم ہو گیا ہے۔ ٹیسٹ و انٹرویو کے لیے نوجوانوں کو کئی کئی گھنٹے پہلے بلا کر بٹھا دیا جاتا ہے جہاں نہ تو بیٹھنے کے لیے مناسب جگہ ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی پنکھا وغیرہ ، پینے کے پانی کا بھی صحیح انتظام نہیں ہوتا، اوپر سے ذرا ذرا سی بات پر ادارے کے ملازمین کی باتیں بھی سننی پڑتی ہیں مگر کیا کریں بے چارے مجبور ہوتے ہیں اس لیے خاموشی سے یہ سب کچھ برداشت کر رہے ہوتے ہیں اور ادارے کے ملازمین ان کی اس مجبوری سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں ، اتنی بڑی بڑی ڈگریاں اٹھائے بیچارے وہاں کے جاہل ملازمین کی ڈانٹ ڈپٹ سن رہے ہوتے ہیں کیوں کہ اگر ذرا سا بولیں تو سارا عملہ ان پر برس پڑتا ہے اور کئی بار تو کھینچ کر باہر بھی نکال دیا جاتا ہے۔ چند روز قبل ایک ادارے میں ٹیسٹ ہو رہا تھا، تقریباً تین سو کے قریب نوجوان امیدواروں کو بلایا گیا جن میں لڑکے اور لڑکیاں سب شامل تھے۔ انتہائی گرمی کے موسم میں ان کے بیٹھنے کا انتظام ایک کھلے میدان میں گھاس پر ٹینٹ لگا کر کیا گیااور بیٹھنے کے لیے بھی ٹینٹ کی ہی کرسیاں رکھی گئیں، وہاں نہ تو پنکھے کا انتظام تھا اور نہ ہی پینے کے لیے ٹھنڈا پانی میسر تھا۔ انہیں نو بجے کا وقت دیا گیا تھا مگر ٹیسٹ کافی تاخیر سے شروع ہوا۔ ان کے پاس انتظام نہیں تھا کہ سب کا اکٹھا ٹیسٹ لے لیں یا کم از کم ایک وقت میں نصف امیدواروں سے ہی ٹیسٹ لے لیں لہٰذا وہ صرف بیس یا بائیس امیدواروں کو بلا کر لے جاتے تقریباً پینتالیس منٹ میں ان سے ٹیسٹ لیتے ٹیسٹ کافی مختصر تھا مگر انتظام ناقص تھا جس کی وجہ سے اتنا زیادہ وقت صرف ہو رہا تھا ۔ اس طرح انہوں نے نو بجے نوجوانوں کو بلا کر چار بجے کے قریب فارغ کیا حالانکہ ٹیسٹ زیادہ سے زیادہ آدھے گھنٹے کا تھا اب جن اداروں میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو پہلے پانچ گھنٹے انتہائی تکلیف دہ حالت میں بٹھایا جاتا ہو اور اس کے بعد وہاں سے کِک آؤٹ کیا جاتا ہو ان اداروں کے لیے نوجوانوں کے دلوں میں کیا عزت ہو گی ۔ جن اداروں کے افسر انہیں کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوں تووہ نوجوان ان اداروں کی کیا حفاظت کریں گے ان پر کیسے بھروسہ کریں گے، اپنے ملک کے افسران سے نفرت نہیں ہو گی تو اور کیا ہو گا ۔ کیا یہ نوجوان اپنے ملک کے لیے کام کرنا پسند کریں گے ان اداروں کے اہلکاروں کے اسی ناروا سلوک کی وجہ سے ہی نوجوان ملک میں کام کرنے کی بجائے بیرون ملک میں ملازمت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ بات سوچ کر کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے کہ جس ملک کے نوجوانوں کو اپنے اداروں پر اعتماد ہی نہ ہو اس ملک کا مستقبل کیا ہو گا ، اس ملک کے ادارے کیسے مظبوط ہوں گے ، یہ ادارے ملک کو کیسے نفع دیں گے ۔ جس ملک کے نوجوانوں سے ایسا سلوک کیا جاتا ہو اس ملک کے نوجوان اپنے وطن سے کیا محبت رکھیں گے اور ملک کے لیے کیا قربانیاں دیں گے ۔ لہٰذا اربابِ اقتدار کو چاہیے کہ نوجوانوں کو صرف ذاتی مفادات کے لیے استعمال نہ کریں بلکہ انہیں مکمل طور پر تحفظ دیں انہیں اپنے وطن اور اس کے اداروں پر اعتماد دلائیں تا کہ وہ مستقبل میں اس ملک کو سنبھال سکیں ، بیرون ممالک کی طرف بھاگنے کی بجائے اپنے ملک کے لیے کام کریں، اسے ترقی دیں ، اس سے محبت کریں اور کسی بھی مشکل وقت میں اپنے وطن کے کام آئیں ۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں