شروع اللہ تبارک وتعالی کے بابرکت نام سے جو بڑا مہربان اور رحم کرنیوالا ہے اور لاکھوں کروڑوں درود و سلام آقائے دوجہاں نبی آخرالزماں جناب محمدرسول اللہﷺ پر اور آپﷺ کی آل پربعد از حمدوثناء میں شکر گزار ہوں پنڈی پوسٹ اور انکی انتظامیہ کا کہ انہوں نے مجھے اپنے خیالات کو قلم بند کرنے اور عوام تک پہنچانے کا موقع فراہم کیا
چونکہ یہ میرا پہلا کالم ہے اور ایک طالب علم کی حیثیت سے میں نے یہ کالم ملک کے قیمتی اور نایاب سرمایہ کے نام لکھا ہے یہ کالم میرا نوجوانون کے لیے ہے چونکہ نوجوان کسی بھی ملک کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں اور بہترین اور فلاحی ریاستیں اس سرمایہ کو بری چیزون سے بچانے اور انہیں قابل بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی ہیں تاکہ انکا مستقبل قابل اور محفوظ ہاتھوں میں جائے اور ان کا ملک مزید ترقی کی منازل طے کرے ان تگ ودو کے باوجود ان ممالک خصوصا یورپ اور خلیجی ممالک کو جب بھی ہنر مند نوجوان ہیں یا افرادی قوت کیلئے چاہے انجینئرز یا ڈاکٹر کی تو وہ جنوبی ایشاء سے اس ضرورت کو پوراکرتے ہیں
ان مین میرا دیس پاکستان بھی سر فہرست ہے جہاں میرے دیس کو مالک نے بے پنا نعمتوں سے مالا مال فرمایا وہاں اس ملک کی کل آبادی کا ساٹھ فی صد نوجوانوں پر مشتمل فرمایا جو اس کا بہت بڑا احسان ہے گزشتہ دنوں ٹی وی پر یہ خبر سن کر بہت دکھ ہوا کہ گزشتہ سال سولہ لاکھ اعلی تعلیم یافتہ نوجوان بہتر مستقبل کے لیے بیرون ممالک چلے گئے ان میں زیادہ تر نوجوان یورپین ممالک گئے ہیں
یہ خوبصورت مستقبل کے خواب سجائے جب ان ممالک کی زندگی میں مشغول ہوتے ہیں تو پھر وہیں کے ہو کے رہ جاتے ہیں اور واپسی ان کے ناممکن بن جاتی ہے اگر وہ آئیں بھی تو چند دن کے مہمان بن کر آ سکتے ہیں یہ وہ نوجوان ہیں جن کے پاس کچھ وسائل تھے جو خرچ کر کے وہ ان ممالک پہنچ گئے مگر جو کچھ کم پڑے ہوتے ہیں یا کم وسائل والے لوگ ہوتے ہیں وہ اُن ممالک جانے کے لیے غیر قانونی طریقے اختیار کرتے ہیں
ابھی کل وزیر داخلہ پاکستان محسن نقوی صاحب اٹلی کی سفیر سے ملے ہیں جس میں غیر قانونی اٹلی جانے والوں کو روکنے کی بات کی گئی یے جو قابل تحسین ہے جو لوگ یہ راہ اختیار کرتے ہیں اس میں وہ زندگی کی بازی بھی ہار جاتے ہیں اور انسانی اسمگلر نہ صرف ان سے کھلی رقم وصول کرتے ہیں بلکہ ان زندگیاں بھی داؤ پر لگاتے ہیں جو نوجوان بالکل ان دونوں طبقوں سے بھی نیچے زنگی بسر کر رہا ہوتا ہے یا تو بے چینی کے عالم میں زندگی کی بازی ہار بیٹھتا ہے یا نفسیاتی مریض بن جاتا ہے یا پھر غیر قانونی سرگرمیوں کا حصہ بن جاتا ہے
جہاں بے رحم لوگ اس کی مجبوری کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں اور یا پھر وہ نہ ختم ہونے والی اذیت یعنی نشے والی زندگی کو اپنا لیا ہے تاکہ معاشرتی اور معاشی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو سکے۔اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے کیا ہماری پالیسیاں اور منصوبہ بندی ٹھیک نہیں اسکے لیے ہمیں سوچنا ہو گا تا کہ یہ نوجوان مزید تباہی سے بچ سکے سوچنا ہوگا کہ غلطی کس سے ہو اب اس بے را روی کو چھوڑنا ہوگا الزامات کی بوچھاڑ ختم کرنا ہوگی منزل کا تعین کرنا ہو گا
حکمرانوں سے لے کر عوام تک سب کو نہ صرف سوچنا بلکہ عملی مظاہرہ کرنا ہو گا تاکہ اس ملک کا نوجوان اپنی وفاداریاں اس ملک سے رکھے تا کہ اس کی توانائیاں اس ملک کے لیے خرچ ہوں اور یہ ملک اپنا وقار بلند کر سکے اور اسکے عوام خوداری سے جی سکیں۔
خدا کرے مری ارض پاک پے
اترے وفصلِ گل
جسے اندیشہِ زوال نہ ہو
اللہ اس ملک وقوم کا حامی و ناصر ہو۔ آمین