columns 91

نوازشریف بمقابلہ عمران خان

یہ حیرت والی بات ہے کہ موجودہ دور کی پاکستانی ریاست میں کوئی فرد عمران خان سے زیادہ خوش قسمت نہیں رہا ہے وہ جب بھی مناسب فیصلہ کرنے میں ناکام ہوتے ہیں یا کسی مشکل میں پھنس جاتے ہیں تو کہیں نہ کہیں سے انہیں ایسی مدد فراہم ہو جاتی ہے کہ ان کی مشکلات دور ہو جاتی ہیں سب سے پہلے تواُن کا سراپا ایسا ہے کہ جس پربے سوچے سمجھے بے شمار لوگ فریفتہ ہیں اور یہ بڑی خوش قسمتی ہے اس سے پہلے ذولفقار علی بھٹو کی شخصیت میں جادوئی اثرتھا اور اس کا انہوں نے بہت فائدہ اٹھایا سابق صدر ایوب خان سیاسی آدمی نہیں تھے وہ اپنے فوجی عہدے کی وجہ سے اقتدار پر قابض ہوئے لیکن ان کی شخصیت بھی خاصی متاثر کن تھی اور لوگ ان کی طرف مائل ہو جایا کرتے تھے وہ خاصے بارعب شخص تھے البتہ ہمارے سیاسی منظر نامے پر جتنی مقناطیسیت عمران خان کو حاصل ہے وہ حیران کن ہے ایسا پہلے نہیں دیکھا گیا ان کو سیاسی طور پر فالو کرنے والے ان کی شخصیت کے سحر میں ڈوبے ہوئے ہیں اوروڈے کی تعریف میں رطب انسان میں ان فالوو رز کے خیال کے مطابق عمران خان سے کبھی کوئی غلطی نہیں ہو سکتی عمران خان کی ایک خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف اتنے پڑے پیمانے پر مہم چلائی گئی کہ ووٹرز کا ایک غالب حصہ انہیں دیکھ دیکھ کر اکتاہٹ کا شکار ہو چکے ہیں عمران خان نے بڑی کامیابی سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو ڈس کریڈٹ کر دیا ہے نوازشریف تین دفعہ پاکستان کے وزیراعظم رہے اس سے پہلے وہ پانچ سال پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے انہوں نے انفراسٹرکچرڈویلپمنٹ کے شعبے میں کافی پیش رفت کی ان کے کئے ہوئے کام نظر بھی آتے ہیں شاہراہیں‘ہوائی اڈے،ہسپتالوں کے علاوہ آئی ٹی کے شعبے میں کافی کام کئے لیکن ہر بار ان کی حکومت کو چلتا کیا گیا جس سے ان کے پروجیکٹس ادھورے رہتے رہے شریف خاندان 1980کی دہائی سے سیاسی منظرنامے پر موجود ہے شریف خاندان نے ن لیگ کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے تھام رکھی ہے اور کسی کو قریب نہیں بھٹکنے دیتے نواز شریف کا خاصا بڑا ووٹ بنک ہے اور اس سے کسی کوبھی انکار نہیں ہو سکتا کہ شہباز شریف کا تو اپنا کوئی ووٹ بنک نہیں شریف خاندان آپس میں بہت جڑا ہوا ہے جس کا فائدہ شہباز شریف اٹھا رہے ہیں لیکن ہر اہم عہدہ خاندان کے اندر رکھنا بہت غیر مناسب ہے خود وزیر اعظم بن جانا اور اپنے بیٹے کو وزیر اعلی بنوادینا قرین مصلحت نہیں تھا اس فیصلے سے عمران خان کو بہت فائدہ ہوا پارٹی کے سینئررہنماؤں کو چھوڑ کر اپنی بھتیجی مریم نواز کو چیف آرگنائزر بنانا بھی کوئی پسندیدہ فیصلہ نہیں ہے عمران خان کا اصل مقابلہ ن لیگ سے ہے شہباز شریف اور عمران خان کی شخصیت میں موازنہ کیا جائے تو کوئی مقابلہ نظر نہیں آتا عمران خان کے مقابلے میں شہباز شریف کے سایامیں کوئی جادوئی پن نہیں عمران خان اور ان کے حامیوں کے خیال میں پی ڈی ایم کی ساری قیادت ڈس کر یڈٹ ہو چکی ہے ایک وقت تھا جب نوازشریف اسٹیبلشمنٹ کے چہیتے تھے اور انہیں دوتہائی اکثریت بھی مل گئی تھی اس لئے ان کے اندر بے پناہ اعتماد پیدا ہو گیا تھا اور یہ اعتماد نواز شریف کو بہت مہنگا پڑا اور وہی ہوا وہ نا پسندیدہ ٹھہرے اور اداروں نے ڈھونڈنا شروع کر دیا کہ کوئی ہو جس کو عوام پسند کرتے ہوں اور وہ اداروں کا کہنے سے پہلو تہی نہ کرے سوالات کرنے کی جرأت تو بالکل بھی نہ کرے کر ہ فال عمران خان کے نام نکلااداروں نے ان کو کامیاب بنانے اور پروموٹ کرنے کے لئے دن رات ایک کر دی اور عمران خان آنکھوں کا تارا بن گئے اداروں نے ان کی سپورٹ کر کے اوج کمال پر پہنچادیا عمران خان بہت خوش قسمت ہیں کہ ان کی میڈیا ٹیم کا کسی بھی دوسری
پاکستانی سیاسی جماعت کے پاس متبادل نہیں ہے یہ ان کی میڈیا ٹیم کا ہی کمال ہے کہ پونے چار سال حکومت کرنے کے بعد عمران خان کے پاس دکھانے کے لائق کچھ بھی نہیں لیکن ان کی میڈیا ٹیم نے عمران خان کو پہلے سے زیادہ مقبول ثابت کر دیا عمران خان کی میڈیا ٹیم میں زیادہ تر نو جوان لڑکے اور لڑکیاں ہیں میڈیا ٹیم نے آبادی کے ایک بڑے حصے کو روشن مستقبل کا خواب دکھایا کامیاب میڈیا پالیسی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے عمران خان خوش قسمت ہیں کہ ا ورسیز پاکستانی ان کے دکھائے گئے خواب کو تعبیر میں بدلنے کے لئے ان کے ساتھ ہیں اب جبکہ سیکورٹی ادارے پیچھے ہٹ گئے ہیں عمران خان پاکستان کی اعلی عدلیہ کی آنکھوں کا تارا بن گئے ہیں وہ ہزار غلطیاں کریں ان کے چاہنے والے ان کی فاش غلطیوں کے اندربھی کوئی خوبی اور حسن ڈھونڈ لیتے میں یہاں تک کہ ایک خوشامدی تجزیہ کار نے کہاہے کہ ہمیں اللہ پاک نے قائداعظم کے بعد ان جیسا لیڈر عمران خان کی شکل میں دیا ہے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کو دارفانی سے کوچ کئے پچھتر سالوں میں ہمیں قائداعظم تو کیا ان کے قریب ترین بھی کوئی سیاسی رہنمانہ مل سکا جسے عوام کا درد اور ملک سے محبت ہو خوشامدی تجزیہ کارکا کہنا ہے کہ عمران خان ملک و قوم کا خیر خواہ ہے اور اسی وجہ سے عوام میں سب سے زیادہ مقبول ہے قائداعظم نے نئے ملک کے قیام کے لئے جو عظیم جدوجہد کی تھی وہ صرف پاکستان بنانے کے لئے تھی حصول اقتدار کے لئے نہیں تھی قائداعظم نے کبھی نہیں کہا تھا کہ میں پاکستان قائم کر کے اس کا حکمران بنوں گا قائداعظم نے تھوک کے حساب یوٹرن نہیں لئے تھے اور نہ اپنے سیاسی مخالفین کو گالیاں دی تھیں قیام پاکستان کی جدوجہد میں شامل رہنمااور بعد میں اقتدار سنبھالنے والے وزیراعظم لیاقت علی خان وہ تھے جنہوں نے اقتدار کے لئے نہیں بلکہ پاکستان کے لئے اپنی جائیدادیں چھوڑدی تھیں قائداعظم کا کوئی ایسا ساتھی نہیں تھا جس کو قائداعظم نے پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دے کر اقتدار کے لئے اس سے سمجھوتہ کیا ہو قائداعظم نے کسی کے لئے نہیں کہا تھا کہ میں اسے چپڑاسی کے قابل بھی نہیں سمجھتا قائداعظم عوام کی طاقت سے پاکستان بنانے میں کامیاب ہوئے تھے قائداعظم نے کسی فوجی جنرل کی مدد لی تھی اور نہ ہی اپنے حامی چیف جسٹس سے اپنے مخالفین کو سزا دلا کر عوام سے جھوٹے وعدے کر کے اقتدار حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی قائداعظم کی گورنرجنرل کی حیثیت میں کوئی ایک ایسی مثال موجود نہیں کہ انہوں نے سرکاری وسائل اپنے لئے استعمال کئے ہوں یااقرباپروری کا مظاہرہ کیا ہو یا کسی لوٹے پارٹیاں بدلنے والوں اچھی شہریت نہ رکھنے والوں کو ملک کی کابینہ میں شامل کیا ہو اس کے بر عکس عمران خان نے حصول اقتدار کے لئے کیا کچھ نہیں کیا قائداعظم نے ایک سچا لیڈر بننے کے لئے کسی چیف جسٹس سے خود کو صادق و امین قرار نہیں دلوایا تھا اور قوم انہیں سچا اور اصول پرست رہنما سمجھتی تھی قائداعظم ہمیشہ اصولوں پر قائم رہے اور انہوں نے اپنے اصولوں پر کبھی رائے بدلی اور نہ سمجھوتہ کیا اور نہ کبھی ضد کا مظاہرہ کیا عمران خان نے اپنے ایماندارہونے کا تاثر دے کر عوام کو گمراہ کیا اور انہیں جھوٹے خواب دکھائے قائداعظم گورنر جنرل کی حیثیت میں سرکاری وسائل استعمال کرنے کے مجاز تھے مگر انہوں نے اپنی خوراک اور دواؤں پر سرکاری فنڈ استعمال نہیں کیا جبکہ سابق وزیراعظم عمران خان نے سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کیا اور حصول اقتدار کے لئے جھوٹے وعدے کئے اور اپنے سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنایا اور ان پر جھوٹے الزامات لگائے عمران خان قائداعظم محمد علی جناح کا عشرعشیر بھی نہیں مگر ایک خوشامدی نے انہیں قائداعظم کے پائے کا لیڈر قرار دینے کی مذموم کوشش کی ہے ذرا سوچئے کہ کہاں قائداعظم محمد علی جناح اور کہاں عمران خان؟

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں