کاشف حسین /کہتے ہیں محبت وہ جذبہ ہے کہ جب کسی کے دل میں پیدا ہوجائے تو وہ دل صرف اپنے محبوب کی محبت سے ہی سرشار نہیں رہتا بلکہ ہرذی روح کے لیے اس دل میں نرم گوشہ موجود رہتا ہے۔موجودہ سماج میں جہاں لوگوں کی اکثریت اپنی ذات کے خود غرض ماحول میں مقید ہیں وہیں کچھ لوگ ذات پات‘رنگ ونسل سے ہٹ کر سب کے لیے اچھائیوں کے کام کرنا اپنافرض سمجھتے ہیں۔ایسے ہی لوگوں میں ایک نام بیول کے نواح میں واقع گاوں ڈھیری کے کی رہائشی ادبی و علمی شخصیت جناب لطیف عالم کا ہے۔آپ حالات حاضرہ کے علاوہ معاشی‘معاشرتی اورسماجی مسائل پر کھل کر لکھتے ہیں آپ کی تحریریں قاری کو جکڑ لیتی ہیں۔مذہبی حوالے سے بھی آپ کا وسیع مطالعہ ہے اسلامی تاریخ کے علاوہ آپ دیگر مذاہب کی تاریخ سے بھی گہری واقفیت رکھتے ہیں۔لڑکپن سے ہی فلاحوں کاموں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔آپ مطالعے کا حد درجہ شوق رکھتے ہیں اسی شوق کے ہاتھوں مجبور ہو کر آپ نے اپنے والد گرامی مرحوم کے نام پر سعد عالم لائبریری قائم کی جس میں دنیا کی بہترین اور نایاب کتب موجود ہیں۔اس لائبریری سے عام افراد بھی مستفید ہورہے ہیں۔آپ اپنی فطرت کے تحت علاقے کے غریب افراد کی خدمت میں مصروف ہیں۔آپ عام آدمی کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے خاموشی سے کام کرتے ہیں۔آپ کا ماننا ہے کہ ہر صاحب حیثیت افراد کو اپنے اردگرد بستے لوگوں کی خبر گیری کرنا چاہیے۔آپ نے اپنے علاقے میں اپنی مدد آپ کے تحت دیہاتوں کی جانب جانے چھوٹی گذر گاہوں کو پختہ کیا۔جن پر ٹریول کرنے افراد آپ کے جذبہ خدمت کو سراہتے ہیں۔آپ کی جوانی کا کافی حصہ برطانیہ میں گذرا وہاں بھی آپکا ماٹو انسانیت کی خدمت ہی رہا۔آپ کو شہر خموشاں کی صفائی ستھرائی اور قبروں کے درمیان پھول پودے لگانے کا بھی بہت شوق ہے آپ اس کے لیے خود سے محنت کرتے رہتے ہیںآپ بہت ہی خاموشی کے ساتھ ضرورت مند افراد کی مالی مدد بھی کرتے رہتے ہیں۔ آپ خواہش رہی ہے حکومت کوئی ایسا پلان مرتب کرے جس سے اس ملک کے غریب عوام کو معاشی
طور بڑا ریلف مل سکے۔آپ کے خیال میں ہر حکومت ڈنگ ٹپاو پالیسی اپناتی ہے جس کے باعث ہر گذرتے دن اس ملک کا غریب مشکلات کی دلدل میں دھنس رہا ہے۔اگر ہر صاحب حیثیت فرد لطیف عالم کی طرح انسانی خدمت کا تہیہ کر لے تو علاقے کے مسائل پر کافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔خدمت کے جذبے سے سرشار لطیف عالم اس پنجابی شعر کے مطابق اپنی زندگی گذار رہے ہیں ۔
دنیا ا±تے رکھ فقیرا ایسا بھن کھلون
کول ہوویں تے ہسن سارے نہ ہوویں تے رون
184