صدف عباس
ہمارے پیارے نبی صلی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان کا مفہوم ہے کہ اگر کوئی سوالی گھوڑے پر سوار ہو کر بھی تمہارے دروازے پر آئے تو اسے خالی ہاتھ مت لوٹاؤایک دفعہ کسی بیان میں سنا تھا کہ تم لوگ دن میں ہزاروں نہیں تو کئی سو روپے بغیر کسی وجہ کے خرچ کرتے ہو لیکن جب کسی بھکاری کو دینے کی باری آتی ہے تو پرس میں سے چینچ تلاش کرتے ہو یا پھر تمہیں پیشہ ور بھکاری کا بھاشن یاد آجاتا ہے۔تمہارے پانچ دس روپے خیرات کر دینے سے ان لوگوں نے کوئی محل نہیں بنا لینے ہوتے ‘بات دل کو لگی اب کوشش یہ ہی ہوتی ہے کہ کسی کو بھی خالی ہاتھ نا لوٹاؤں بڑی دکان والے سے سودا بازی کروا کے ریٹ کم کروانا تو سمجھ میں آتا ہے کہ وہ لوگ منافع کا ٹھیک ٹھاک مارجن رکھ کر اپنی چیز کا ریٹ بتاتے ہیں مگر جو بے چارے ہاتھ میں آزاربند اور کنگھی وغیرہ دس دس روپے میں بیچ رہے ہوں ان سے آٹھ روپے کروانا سمجھ سے بالاتر ہے آج جس بات نے مجھے لکھنے پر مجبور کیا وہ نہایت تکلیف دہ ہے نو سالہ بھتیجی نے جب سے آخری پیپر دیا تھا اپنی ساری کاپی کتابیں ایک پلاسٹک بیگ میں ڈال کر رکھی ہوئی تھیں کہ ردی والے کو بیچ کر ان کے پیسے میں لوں گی میں مذاق میں اسے تنگ کرتی تھی کہ جب تک تمہارا رزلٹ نہیں آجاتا بکس نہیں بیچنی کیا پتہ فیل ہو جاؤ اور پھر یہ ہی کلاس رپیٹ کرنی پڑے اور وہ منہ سجا لیتی کہ کیا میں اتنی نالائق ہوں
اب تو رزلٹ آئے بھی کافی دن ہوگئے تھے اور ماشاء اللہ اچھے نمبروں سے پاس بھی ہوگئی تھی
”چھان ٹکر ویچ لو کاپی کتاباں دی ردی ویچ لو”
لیکن آج جونہی اس کے کانوں میں آواز پڑی وہ بغیر کسی سے پوچھے کتابیں اٹھا کر باہر بھاگی۔۔۔امی نے صحن میں سے آواز دی ”کس طرح کلو ہے ”ردی والا کہنے لگا” بارہ روپے ہے اور کتابوں کا وزن دو کلو ہوا ہے”جا بھائی معاف کر بیس روپے بک رہی ہے ” امی نے یہ کہہ کر پوتی کو اندر آنے کا کہاچونکہ ابھی کل ہی سٹور خالی کیا تھا اور جو جہان کی ردی پلاسٹک اور لوہے کے چھوٹے چھوٹے ٹکٹرے بیچے تھے اس لئے امی کو ریٹ کا علم تھا مگر اس کا کتابوں والا شاپر رہ گیا تھاوہ بسورنے لگی میں نے اسے پچکارا کہ بس اب جو بھی ردی والا آیا جس بھی ریٹ میں لے گا ہم بیچ دیں گے لیکن مجھے افسوس ہو رہا تھا کہ چند روپے کی خیر تھی اس کی دیہاڑی بن جاتی ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ ایک اور ردی والے نے آواز لگائی ریٹ پوچھا تو اٹھارہ روپے بغیر بحث کئیے میں نے بھتیجی کو کہا بکس دے دو لیکن جب اس نے کتابوں کا وزن کیا تو پورے چار کلو۔۔۔۔فطری طور پر تو غصے سے دماغ گھوم جانا چاہئے تھا مگر مجھے انجانے سے دکھ نے گھیر لیا ریٹ کا فرق تو چلو خیر ہے لیکن
حد ہے وزن میں اکھٹا دو کلو کا فرق ڈال رہا تھا۔۔۔بڑے بڑے بیوپاری آرام دہ اے سی لگے کمروں میں بیٹھ کر ہیرا پھیرا کریں تو سمجھ میں آتا ہے کہ دولت کی ہوس نے انکے ضمیر مردہ کر دئیے ہیں مگر سارا دن سردی گرمی میں صبح سے شام تک اتنی محنت مزدوری کے باوجود بندہ نا دنیا کما سکے اور نہ آخرت تو کتنے خسارے کا سودا ہے کاش لوگ سمجھتے کہ چیزوں کو کم تولنے سے جیب تو شاید معمولی سی بھاری ہوگی مگر نامہ اعمال کے ترازو میں بایاں پلڑا زیادہ بھاری ہو جائے گا
137