تعصب خود ساختہ برتری اور متعصبانہ رویے ذہنی پستی کے غماز ہوتے ہیں اسی زہنی پستی کی وجہ سے قوموں نے قوموں پر نسلوں نے نسلوں پر علاقوں نے علاقوں پر اور زبانوں نے زبانوں پر حملہ آور ہو کر تخریب کاری کی ہے پچھلے ہفتے کے کالم میں بندہ حقیر نے پوٹھوہاری زبان کو نادرا ڈیٹابیس میں زبان کے طور پر شامل کرنے کے متعلق لکھا تھا جس پر اس ہفتے کے دوران سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر پنجاب کے خود ساختہ بلکہ نام نہاد محبان کی طرف سے کافی لے دے ہوئی ہے جو کہ بہرحال ایک تعصب زدہ ماحول کے پروردہ کج فہموں کی ہرزہ سرائی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اس تحریر میں میری یہ کوشش ہوگی کہ ماضی و حال کے اندرونی و بیرونی ادبی و ثقافتی و علاقائی حملوں کے احوال قارئین کے سامنے پیش کروں ماضی بعید میں پوٹھوہاری لہجہ پنجابی زبان سے متصل رہا ہے گو کہ سرزمین سطح مرتفع پوٹھوہار ہیئت و حثیت کی وجہ سے ہمیشہ ممتاز رہی ہے ادبی و علمی حوالہ سے دنیا کی پہلی باضابطہ یونیورسٹی ٹیکسلا اور کٹاس راج جہاں سے البیرونی نے بھی تعلیم حاصل کی اور ہندو مت کی پہلی کتاب ”رگ وید” تین سو سال قبل مسیح پوٹھوہار کے علاقے کٹاس راج (چکوال) میں لکھی گئی جو اٹھارہ جلدوں پر مشتمل ہے اور دنیا کی بڑی نظموں میں سے ایک ”مہا بھارت” بھی تحریر ہے اور بعض روایات کے مطابق باقاعدہ سکھ مت کی ابتداء بھی بابا گرو نانک نے پوٹھوہار سے کی۔بدھ مت کا مرکز کئی صدیاں پوٹھوہار میں رہا یہ سابقہ ادبی و علمی حوالہ جات ہیں جبکہ ادب کی تاریخ بھی انتہائی اعلیٰ و مدلل ہے ادب کی دو اقسام ہیں منثور اور منظوم واقفان علم و ادب یہ جانتے ہیں کہ ادب علم کے بغیر ناممکن ہے جبکہ نثر کے بغیر نامکمل ہے اور یہ واضح ہے کہ سرزمین سطح مرتفع پوٹھوہار صدیوں سے نثری ادب میں کارہائے نمایاں انجام دیتی رہی ہے شاعری یعنی نظم میں جو پذیرائی اور اعلیٰ مقام پوٹھوہار کے شعراء و ادباء کو حاصل ہے وہ قرب و جوار کے علاقوں کے ادب کو حاصل نہیں ہے یہاں پنجاب اور پوٹھوہار کے ادب پر بات کی جانی مقصود ہے پنجابی زبان کے بڑے شعراء و ادباء پوٹھوہار کے شہنشاہ ادب جنابِ احمد علی سائیں ایرانی پشوری ؒ کے تلامذہ میں شمار ہوتے ہیں جن میں پنجابی شہنشاہ متغزلین پیر فضل گجراتی ؒ سے لیکر مولا بخش کشتہ ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ پروفیسر موہن سنگھ اللہ دتہ جوگی جہلمیؒ شامل ہیں ایسے ہی مشرقی و مغربی پنجاب کے نابغہ روزگار شخصیات شامل ہیں وہ پوٹھوہار کے سائیں ؒ کے تلامذہ ہونے پر فخر محسوس کرتے رہے ہیں جبکہ پوٹھوہار کے ایک نام نہاد طبقہ کو بھی احمد علی سائیں ایرانی پشوری ؒ سے بغض و عداوت ہے جو آج انہیں پوٹھوہار کا ادیب اور شاعر نہیں مانتے حالانکہ آج تک پوٹھوہار کے ادب پر سائیں ؒاور ان کے تلامذہ و متوسلین جن میں راقم الحروف شامل ہے علمی و ادبی خدمات سر انجام دے رہے ہیں پوٹھوہار کے بڑے نام یا تو سائیں کے تلامذہ ہیں یا سائیں کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں جن میں پیر مہر علی شاہ گیلانیؒ ‘ غلام محی الدین مونس نقشی ؒ‘ باقی صدیقی‘ خان زمان خان کوٹلہ‘ محمد انور فراق قریشی‘مرزا شیر زمان‘ سائیں صدیق‘خداداد دکھیا‘ عبدالقادر قادری‘ ماسٹر شریف نثار‘دلپذیر شاد‘ ولائیت حسین ازہر‘گل فیاض کیانی‘ باوا محمد جمیل قلندر‘علی اکبر سیف‘حاجی محراب خاور‘ فاضل شائق، بابو جمیل احمد جمیل اور یاسر کیانی و دیگر شامل ہیں پنجاب اور پنجابی زبان کے نام نہاد نقادوں نے کبھی پوٹھوہار کے شعراء و ادباء کی مجموعی طور پر حوصلہ افزائی نہیں کی ہمیشہ متعصبانہ رویے سے سرائیکی وسیب اور پوٹھوہاری ادب کو بالترتیب رگیدا ہے انتظامی، ادبی و فکری حوالہ سے علاقائی تقسیم وقت کا تقاضہ ہوتی ہے جوں جوں وقت گزرتا ہے تہذیب و ثقافت وسعت اختیار کرتی ہے جب جب علیحدہ ہونا فطری عمل ہے پنجاب کے خود ساختہ اور نام نہاد محبان و ادباء نے اس حقیقت سے ہمیشہ انکار کیا ہے جو کہ نزدیک زبانیں جن میں سرائیکی زبان اور پوٹھوہاری زبان پر محاذ آرائیوں پر اتر آئے ہیں چونکہ علاقائی طور پر ہمارا استحقاق ہے کہ ہم اپنی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی زبان کے فروغ کے لیے آواز بلند کریں اس کے لیے پنجاب کے خود ساختہ بلکہ نام نہاد محبان اگر لاہور ہائیکورٹ سے رجوع بھی کرتے ہیں جو کہ ان کی سوشل میڈیا پوسٹس سے واضح ہے تو ہم اس کے لیے حاضر ہیں آئیے دیکھتے ہیں مقابلے میں کون ثابت قدم رہ کر اپنی ماں بولی کی خدمت کرتا ہے اور کون تخریب کاری سے اپنی زبان کو نقصان پہنچاتا ہے ہمیں کبھی پنجاب کے ادباء و شعراء نے پنجابی نہیں سمجھا اس روش کو دیکھتے ہوئے ہمارے اسلاف نے نامساعد حالات میں لغات پر تقریباً ایک عشرے میں بیٹھکوں سے اپنی زبان کے قواعد و ضوابط تخلیق کیے جس کے بعد پوٹھوہاری لہجہ کو زبان کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی جو کہ آج قرآن مجید کا ترجمہ سمیت نادرا ڈیٹابیس میں زبان کے طور پر اندراج ہوا تھا جو پنجابی زبان کے روزنامہ ”پنجابی زبان لہور” کے مطابق نادرا نے پوٹھوہاری زبان کے اندراج کو یکم مارچ 2022 کو واپس لے لیا ہے جس پر کامیابی کے شادیانے بجائے جارہے ہیں لیکن اب پوٹھوہار کے باسیوں کو یہ سوچنا ہوگا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ہماری حیثیت کیا ہے میری رائے کے مطابق اس پر پوٹھوہار کے تمام مکاتب کو سوشل میڈیا پرنٹ میڈیا پر احتجاج سمیت لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ راولپنڈی میں رٹ دائر کر کے اپنے پوٹھوہاری ہونے کا ثبوت دینا چاہیے اور پوٹھوہاری زبان کو ایک بار پھر نادرا ڈیٹابیس میں زبان کے طور پر درج کرانا چاہیے چونکہ پنجاب نے اس رویے سے ہمارے دل دکھائے اس لیے نفرت اور تعصب سے بالاتر ہو کر کھلے دل کے ساتھ اپنی زبان پوٹھوہاری کو منوایا جائے تاکہ ہمارا جو اجتماعی نقصان ہو رہا ہے اس سے بچ جائیں ہم اہلیانِ پوٹھوہار کے دلوں میں جو پنجاب کے لیے محبت موجود رہی ہے وہ اب آخری سانس لے رہی ہے اب ہمیں سرائیکی وسیب کی طرح یہاں بھی ایک تحریک نفاذ زبان چلانی پڑے گی جس کا نقصان بہرحال پنجابی زبان کو ہو گا ہماری یعنی پوٹھوہار کی اجتماعی روش یہ رہی ہے کہ ہم نے کبھی کسی دوسری زبان کے ادباء و شعراء سے تفریق رنگ و نسل یا علاقہ نہیں کی جبکہ ہمارے ساتھ ہمیشہ ہمارے ہمسایوں نے متعصبانہ رویے اور سوتیلے پن کا سلوک روا رکھا جو انتہائی قابلِ مذمت ہے اس لیے ہمارا فرض ہے کہ آپ کو بمعہ حوالہ جات سمجھائیں اور محبتوں کے گلاب پیش کریں جو گلاب آپ نے ہمیشہ مسل کر پھینک دیا ہے اب اس کے بعد بھی آپ کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تو ہم اپنی منزل مقصود کی طرف توجہ مبذول کرکے سفر جاری رکھیں گے انشاء اللہ
اپنڑے دیس نی مٹی نال عشق ہیوے
حامی کدی نئیں رہیا انکاریاں ناں
سودے بازی خلوص نی نئیں کیتی
طرف دار وی نئیں بیوپاریاں ناں
اے وی نئیں کہ عزتاں نئیں دل وچ
قدر دان آں زباناں میں ساریاں ناں
میں پوٹھوہاری حقیر پوٹھوہار ناں آں
تے شاگرد وی ہویا پوٹھوہاریاں ناں
