columns 142

نئی حکومت کو درپیش معاشی و سفارتی چیلنجز

ملک میں طویل عرصے سے جاری سیاسی و معاشی بحران کے بعد نئی حکومت کا قیام عمل میں آیا ہے سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ہوا پاکستان اسٹاک ایکسچینج چالیس ہزار پوائنٹس کی نفساتی حد عبور کر گئی جبکہ ڈالر کی قدر میں کمی دیکھی گئی ہے جو کہ خوش آئند امر ہے لیکن اس حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتے کہ نئی حکومت کیلئے معیشت کو درپیش چیلنجزاپنی جگہ قائم رہیں گے گردشی قرضوں سے چھٹکارا کیسے ممکن ہو گا تجارتی خسارے میں کمی پر کیسے قابو پایا جائے گاروپے کی گرتی ہوئی قدر کو کیسے بحال کیا جائے گاقرضوں کو اتارنے کیلئے کیا حکمت عملی وضع کی جائے گی آئی ایم ایف اس انتظار میں ہے کہ اب قرض کی اگلی قسط کے اجراء کیلئے نئی حکومت سے بات چیت کی جائے جبکہ بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کی شرح مزید بڑھنے کے امکانات موجود ہیں رواں مالی سال اور اگلے برس پاکستان کو لگ بھگ تیس ارب ڈالر زکی رقم واپس کرنی ہے نئی اتحادی حکومت کو جو چیلنجز درپیش ہیں ان میں معاشی سطح پر مہنگائی عروج پر ہے ڈالر آسمان کی بلندی پر اور قرضوں کا بوجھ عوام پر ملک پر ایک سو بلین ڈالر قرضہ پہلے ہی چڑھا ہوا ہے اور روپے کی قیمت کم ہونے سے یہ قرضہ مزید بڑھے گاجبکہ سرمایہ کار حکومت کو خبردار کر رہے تھے شرح سود بڑھانے سے پاکستان تنہائی کا شکار ہے چین سی پیک کی رفتار سست ہونے سے پریشان ہے امریکہ‘چین‘اور روس سے بڑھتی ہوئی قربت پر خفا ہے یورپی یونین کی بھی پاکستان کے بارے میں یہی رائے ہے نئی حکومت کو زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے متوازن بجٹ پیش کرنا ہو گا لیکن موجودہ حکومت کیلئے سخت اقدامات کرنا مشکل ہو گاکیونکہ نئی حکومت مہنگائی مکاؤ مارچ کرکے اقتدار میں آئی کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ معیشت کیلئے ایک بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے امریکہ کی پالیسی کی وجہ سے ڈالر کی مانگ بڑھے گی لیکن ہمارے پالیسی سازوں نے کافی تاخیر کے بعد ڈسکاؤنٹ ریٹ بڑھایا ہے سب سے پہلے انہیں آئی ایم ایف کو مالیاتی جگہ حاصل کرنے کیلئے راضی کرنا ہو گا تاکہ اصلاحی اقدامات کئے جاسکیں سب سے پہلے انہیں پی او ایل کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑھے گا لہذا مہنگائی مزید بڑھ سکتی ہے ملک کو اپنے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کی ضرورت ہے فنڈز کے چینی قرضوں کو واپس کرنے کے پروگرام کو موخر کرنا ہو گا اور حکومت کو دو طرفہ اور کثیر جہتی شراکت داروں کے ساتھ بڑھتے ہوئے فنڈنگ کیلئے فعال طور مشغول ہونا پڑے گا بتیس ارب ڈالرسے زیادہ بیرونی فنانسنگ کیلئے بہتر شرائط پر کامیاب تکمیل کی ضرورت ہے آئی ایم ایف قرضوں کی وصولی چاہتا ہے اس کیلئے ہمیں غیر پیداوری اخراجات کم کرنے پڑیں گے پھر ترقیاتی کاموں کو معطل کرناپڑے گاترقیاتی پروگراموں کو معطل کرنے سے عوام کیلئے مشکلات بڑھیں گی لیکن حکومت کو ایسے مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے عمران خان نے پورے ملک میں مظاہروں کا اعلان کر دیا ہے جس سے ملک میں کشیدگی بڑھے گی اور غیر جمہوری قوتوں کی طرف سے مداخلت کا خطرہ بھی رہے گا اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے ایک قومی ایجنڈا تیار کرنا ضروری ہے جس میں صوبوں کے حقوق اور اداروں کے آئینی حدود کے حوالے سے ڈائیلاگ ہو یہ ایجنڈا کچھ سالوں تک نافذ کیا جائے قومی ایجنڈے کے بغیر عدم استحکام بڑھے گا کوئی بھی ملک اپنے مفادات کے بغیر کسی دوسرے ملک کے ساتھ تعلقات استوار نہیں کرتا لہذا نئی حکومت کو بین الاقوامی تعلقات میں حقیقت پسندی کو مدنظر رکھنا چاہیے سفارتی سطح پر اقوام عالم سے تعلقات کی بہتری کے چیلنجزپر بات کی جائے تو پاکستا ن کیلئے
فائدہ اس میں ہے کہ امریکہ کے ساتھ ایک حد تک تعلقات کو باہمی احترام کے ساتھ برقرار رکھا جائے اور یہ ہمارے حق میں نہیں ہو گا کہ ہمارے تعلقات امریکہ کے ساتھ دوستانہ نہ ہوں نریندمودی کی بات کریں تو اس کی سوچ انتہا پسندانہ ہے اور اس کا ماضی سب کے سامنے ہے بھارتی اسٹیبلشمنٹ شیوسینا بن چکی ہے کیونکہ شیوسینا کی مرضی کے بغیر ہمارے کھلاڑی‘فنکاروغیرہ بھارت نہیں جا سکتے پاک بھارت معاملات بہتر نہ ہونے میں بھارتی اسٹیبلشمنٹ ایک بڑی رکاوٹ ہے جبکہ پاکستان امن کا خواہاں ہے بھارت‘امریکہ‘اسرائیل‘سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ایک طرف جبکہ پاکستان‘چین‘روس‘ایران اور ترکی دوسری طرف نظر آرہے ہیں لہذا اب معاملات اسی تناظر میں آگے بڑھیں گے کیا کوئی تصورکر سکتا تھا کہ روس‘افعانستان میں ثالثی کا کردار ادا کرے گا؟حالانکہ یہ سارا معاملہ تو اس کیلئے ہی بنایا گیا تھا اور وہاں موجود طالبان اس کے خلاف استعمال ہونے اور ایک روز قبل روس نے پہل کرتے ہوئے طالبان حکومت کے سفارت کارکو تسلیم کیا ہے چین ہو یا امریکہ‘پاکستان کو اپنے مفادات پر بات کرنی چاہیے اور انہیں مدنظر رکھتے ہوئے بہتر تعلقات کو فروغ دیا جائے افعانستان میں امن ہمارے مفاد میں ہے جس کیلئے بھارت کے ساتھ معاملات کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے ہم جانتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ کشمیر کا مسئلہ ابدی مسئلہ ہے جو حل نہیں ہو سکتا تاہم امن کی کوشش ضرور کی جا سکتی ہے،متحدہ اپوزیشن نے اقتدار میں آنے سے قبل اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ برسراقتدار آتے ہی غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ کریں گے اور عوام کا معیار زندگی بہتر بنایا جائے گا اس کا سادہ اور بہتر حل تو ٹیکس کے نظام کا فعال ہونا ہے جس کے تحت ایسے ٹیکسوں کا اطلاق نہ کیا جائے کہ جس سے عام شہری متاثر ہو ملک کے محدود ٹیکس نیٹ کو وسیع کرکے ٹیکس وصول کیا جانا نئی حکومت کی حکمت عملی میں شامل ہونا چاہئے جبکہ معاشی صورت حال پر قابو پانے کیلئے ٹاسک فورس قائم کی جائے جو کہ بیرون ممالک سے پیسہ لاسکے اور مین پاور پالیسی کی شدید ضرورت ہے جس کے تحت با ہنر لوگ باہر سے زیادہ سے زیادہ پیسہ بھجوا سکیں ہمیں اپنی زراعت کو بہتر بنانے کی ازحد ضرورت ہے زراعت کو فروغ دئے بغیر معاشی ترقی کا تصور دھندلا جاتا ہے ملکی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ حکومتی اخراجات کم سے کم کئے جائیں غیر ترقی یافتہ منصوبہ کے بجائے ترقی یافتہ منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جائے اور جی ایس ٹی سے حاصل ہونے والے وسائل کم ازکم پچاس فی صد ترقی یافتہ منصوبوں پر خرچ کئے جائیں اس سے روزگارکے نئے مواقع پیدا ہوں گے سرمایہ کاری بڑھے گی زرمبادلہ کے نئے مواقع پیدا ہوں گے پاکستان کو نئے دور میں ایسی اقتصادی ترجیحات کو درست کرنا ہو گاجس میں اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانا بھی شامل ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ترقیاتی عمل اور نظریات کے متعلق اپنے طرز فکر کو مضبوط کریں جمہوریت اور قانون کی بالادستی کو اہمیت دیں عوام اور ریاست کے درمیان باہمی اعتماد کی فضا کو قائم کریں تاکہ ترقی کیلئے اٹھنے والے ابتدائی سفر میں عوام اس قافلے میں شامل ہو جائیں اور یہ قافلہ خوش اسلوبی سے منزل کی جانب رواں دواں ہو جو کہ پاکستان کے استحکام کی منزل ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں