پنجاب میں بھی بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے تیاریاں زور و شور سے جاری ہے تمام تر سیاسی جماعتیں خاص طور پر حکمران جماعت بلدیاتی انتخابات کو لے کر کافی سنجیدہ نظر آرہی ہے الیکشن کمیشن نے انتخابات مئی میں کروانے کا اعلان بھی کر دیا ہے لیکن انتخابات سے قبل یونین کونسل کی سطح پر جس طرح سے حلقہ بندی کی گئی ہے اس سے تو تمام جماعتیں اور الیکشن لڑنے کے خواہاں لوگ تذبذب کا شکار ہوگئے ہیں کیونکہ حلقہ بندیاں ایسے ہوئی ہیں کہ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہی کے الیکشن کمیشن نے کس طرح سے حلقہ بندیاں مرتب کی ہیں اس فیصلے کے خلاف تقریبا ہر جگہ سے لوگوں نے اعتراضات بھی داخل کیے ہیں اور ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا ہے لیکن ایسے میں اگر انتخابات ہو جائیں تو راولپنڈی اور خاص طور پر حلقہ این اے 59 کی کیا سیاسی صورتحال ہے اس پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آج سے ایک سال قبل جب اس حوالے سے ڈائری لکھی تھی کہ راولپنڈی خاص طور پر حلقہ این اے 59 میں سیاسی جماعتوں کی کیا صورتحال ہے اور کس جماعت کا پلڑا بھاری ہے اور کس کی کیا پوزیشن ہے اس ڈائری میں مسلم لیگ ن کی سیاسی صورتحال پر بتایا تھا کہ ماضی میں جس جماعت کے ٹکٹ کم اور ٹکٹ لینے والوں کی لمبی لائن ہوتی تھی اب مسلم لیگ ن کو این اے 59 کی کچھ یونین کونسل میں امیدوار تک نہیں مل رہے کیونکہ ماضی میں مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے اور جیتنے والے امیدوار و سیاسی نمائندے تاحال چوہدری نثار علی خان گروپ کے ساتھ کھڑے ہیں اور کچھ تحریک انصاف کو پیارے ہوچکے ہیں اور اب اسی گروپ سے الیکشن لڑنے کے بھی خواہاں ہیں اور چوہدری نثار کے کسی بھی فیصلہ کا انتظار کر رہے ہیں لیکن آج ایک سال بعد جب دوبارہ اس موضوع پر لکھ رہا ہوں تو صورتحال یکسر بدل چکی ہے اب حلقہ این اے 59 کی بیشتر یونین کونسل میں ماضی کے بلدیاتی نمائندے دوبارہ سے مسلم لیگ ن کی چھتری تلے جمع ہو چکے ہیں اور جہاں پر وہ انکے ساتھ نہیں تو وہاں پر انکے مدمقابل بہت سے لوگ خواہ انکا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہو یا چوہدری نثار علی خان گروپ سے مسلم لیگ ن میں شامل ہو چکے ہیں اور الیکشن لڑنے کے خواہاں ہیں آئے روز کسی ناں کسی یونین کونسل سے کوئی دھڑا مسلم لیگ ن میں شامل ہو رہا ہے اس کامیابی کا سہرا بے شک انجینئر قمر اسلام راجہ کو جاتا ہے جنھوں نے پارٹی سے وفاداری نبھاتے ہوئے حلقہ این اے 59 میں مسلم لیگ ن کو دوبارہ سے زندہ کیا دوسری جانب اس حلقہ میں اگر حکمران جماعت کو دیکھیں تو انکی حالیہ مہنگائی کش پالسیوں اور دن بدن بڑھتی مہنگائی کے سبب انکا اپنا ورکر اوربلدیاتی انتخابات میں الیکشن لڑنے کا خواہش مند امیدوار بھی پریشان ہے کہ جب عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا جارہا توبلدیاتی انتخابات میں عوام کیسے انکو ووٹ دے گی لیکن پھر بھی بلدیاتی انتخابات سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار جو بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمند ہیں اپنے طور پر اسکی تیاری میں مصروف ہیں اس حلقے میں ایک اور بڑا گروپ گو کہ چوہدری نثار علی خان خاموش ہے لیکن مختلف یونین کونسل میں موجود بلدیاتی نمائندے جو ماضی میں اپنی یونین کونسل سے الیکشن جیتتے آرہے ہیں اور مقامی طور پرعلاقے میں اپنا اسر و رسوخ رکھتے ہیں وہ تاحال چوہدری نثار علی خان کے ساتھ کھڑے ہیں ایسے میں یہ لوگ بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ ن کو کافی ٹف ٹائم دے سکتے ہیں اور اسکا فائدہ جنرل الیکشن کی طرح تیسری جماعت یعنی تحریک انصاف کو ہوگا اس کے علاوہ اس حلقے میں ایک اور جماعت جو دن بدن متحرک ہوتی جارہی ہے وہ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے خطرہ کی گھنٹی بجا سکتی ہے وہ ہے تحریک لبیک پاکستان اس جماعت کا ووٹر دن بدن بڑھتا جا رہا ہے اور اگر ہم بات کریں این اے 59 کی تو مذہبی حوالے سے بھی اس حلقے میں تحریک لبیک کو فائدہ ہوگا کیونکہ یہاں مذہبی حوالے سے بھی کافی رجہان ہے یعنی آنے والے بلدیاتی انتخابات میں کسی بھی سیاسی جماعت یا حریف کو اس جماعت کا امیدوار ٹف ٹائم دے سکتا اس کے علاوہ اس حلقے میں جماعت اسلامی کا بھی ووٹ بنک موجود ہے اسی طرح سے پاکستان پیپلز پارٹی بھی اپنا اثر و رسوخ رکھتی ہے لیکن بظاہر جو مقابلہ نظر آرہا ہے وہ چار امیدواروں یعنی تین جماعتوں اور چھوتا آزاد گروپ یعنی چوہدری نثار علی خان میں ہوتا نظر آرہا ہے
182