111

میں کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کروں/ غوثیہ جمیل

اس جدید دور کی چکاچوند میں کھویا انسان بھی کتنا عجیب ہے ،ہرطرف معصومیت کے بہتے آنسو،انسانیت کی بکھرتی دھجیاں ،بستر مرگ پر آخری سانس لیتی اخلاقیات کی بے جاں نیم نعش،نسوانیت کے بگھڑے خدوخال ،نام نہاد مردانگی کے پتلے ہرسوجلوہ گرہیں،دل ہلادینے والے لرزہ خیز واقعات ہرآنکھ کواشکبار ہونے پر مجبور کئے دیتے ہیں،ہم سماجی طور پر بے حسی اور پستی کی آخری حدود کو چھونے والے سماجی رویوں کا شکار ہیں ،انفرادی اور اپنی ذات کے بجائے اجتماعی انقلاب کے ہی خواہاں ہیں،لیکن المیہ یہ ہے،کہ ہم اس معاشرے کے باسی ہیں،جہاں دوسروں کو کمتر ثابت کرنا ہی اپنی برتری سمجھاجاتا ہے،اور خود ساختہ برتری کے حصول میں سینہ صرف خود کم تر سے کم تر ہوتے چلے جاتے ہیں ،بلکہ اس بونڈی کوشش میں ہم اجتماعی طور پر ایک کمتر معاشرے کی بنیاد کو مضبوط سے مضبوط تر بناتے چلے جاتے ہیں،شکوک و شبہات ،منفی رویے ،بوکھلاہٹ،ذہنی کشمکش،بے یقینی اور بے حسی کا زہرہماری معاشرتی جڑوں کو کھوکھلا کرچکاہے،مگر ہم احمقوں کی جنت میں زندہ ہیں،اور اتنی سی بات بھی سمجھنا نہیں چاہتے کہ انقلاب یا تعمیری تبدیلی محض خوابوں اور آرزوں سے نہیں آتی ،بلکہ اس کے لیے خوداپنی ذات سے آغاز کرنا پڑتا ہے،سب سے پہلے اپنی ذات میں تعمیری ومثبت تبدیلی اور انقلاب برپا کرنے کی ضرورت ہوا کرتی ہے،مگر عقل و خرد سے نا آشنا ئی کی انتہا تو یہ ہے کہ ہم انسانیت کے اتنے ٹکڑوں (ذات،برادری ،لسانی ،علاقائی)میں کرچکے ہیں کہ ہمیں سماج میں انسانیت کی باقیات تک ملنا مشکل نظر آتا ہے،اور روز بروز حالت مزید نا گفتہ بہ ہوتی جارہی ہے،اور پھر بھی ہماری قوم انقلاب کو آنکھوں میں بسائے بیٹھی ہے ،اور اپنی ذمہ داری نبھانے کے نجائے کبھی اہل اقتدار،کبھی بیورو کریسی تو کبھی کسی بیرونی طاقت یا سیاسی شخصیت کو انقلاب کی ذمہ داری سونپ کر خود کو مبرا سمجھا جاتا ہے ،اور اس ارض پاک کے باشندے علاقائی، صوبائی،مذہبی ،فرقہ وارانہ اور لسانی تعصبات و تفریق میں اس قدر کھو چکے ہیں کہ شعور اس بات کو ماننے سے ہی منکر ہونے لگتا ہے کہ ہم بنی نوع انسان ہیں،یاکوئی فرقہ وارانہ،علاقائی، اور لسانی نوع کی کوئی مخلوق،افسوس ہم یہ بھول گئے ہیں کہ قانون قدرت ہے کہ کائنات میں وہی چیز انسان کی طرف پلٹ کرآتی ہے جو انسان دنیا کو دیتا ہے ،ہم کسی کو منفی رویہ اور غصہ دے کر یہ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ ہمیں مقابل سے مسکراہٹ ملے گی،حقیقت تو یہ ہے کہ اس معاشرتی زندگی کے امن و سکون کی تباہی کے ذمہ دار ہم خود ہیں ،اس لئے ضرورت اس امر کی ہے ،ہم اس سچائی سے آشنا ہو کر اس سچائی کو اپنے ذہنوں میں محفوظ کرلیں، کہ انسانیت اس کائنات کی سب سے قیمتی اور اہم اخلاقی قدر ہے ،اگر آج ہم نے اسے کھو دیا جو کہ ہمارا قومی وطیر بن چکا ہے ،تو نہ صرف ہم خود خمیازہ بھگتیں گے بلکہ آنے والی نسلوں کے مجرم گردانے جائیں گے،کیونکہ ہم ہی آنے والی نسلوں کے امین ہیں،سو ہمیں ہی سوچنا ہوگا ،کہ ہم موجودہ نسل اور آنے والی نسلوں کے حوالے کونسی روایات،اخلاقیات اور اقتدار منتقل کرکے جارہے ہیں،ارباب اہل اقتدار تو کیاعام آدمی اس حقیقت کو سمجھ کر عمل پیرا ہوسکے مگر افسوس ۔۔۔
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے سب ٹھکانوں کی
شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں