میڈیا لٹریسی: بندر کے ہاتھ میں بندوق

ڈیجیٹل میڈیا کے اس عہد میں موبائل فون ہماری روزمرہ زندگی کا لازمی جزو بن چکا ہے۔ بچے ہوں یا بڑے، مرد ہوں یا خواتین، سبھی اس کے استعمال میں ہمہ وقت مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ لوگ میڈیا لٹریسی سے جزوی طور پر واقف ہیں جبکہ اکثریت اس کے نام سے تک بھی ناواقف ہے۔ یہی لاعلمی آج ہمارے معاشرتی اور سماجی مسائل کو جنم دے رہی ہے۔

ڈیجیٹل میڈیا کے اس دور میں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان میں پچیس کروڑ صحافی بستے ہوں۔ سیٹزن جرنلزم (Citizen Journalism) کے رجحان نے ہر شخص کو خبر دینے، رائے ظاہر کرنے اور ویڈیو یا پوسٹ کی صورت میں مواد شائع کرنے کا موقع دے دیا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اکثریت اس کے استعمالات کی باریکیوں سے نابلد ہے۔ کیا بات کہنی ہے اور کیا نہیں، اس کا ادراک کم ہی لوگوں کو ہے۔ خواتین، شادی شدہ زندگی، یا ذاتی معاملات پر اظہارِ رائے کی حدود کیا ہیں؟ خبر اور پبلک ریلیشنز میں کیا فرق ہے؟ کون سی باتیں جان کر بھی رپورٹ نہیں کرنی چاہییں؟ اور خبر کی تصحیح (Correction) یا غلطی کی اصلاح کیسے کی جاتی ہے؟ یہ تمام پہلو ہمارے بیشتر صارفین کے علم سے باہر ہیں۔

اسی لاعلمی کے نتیجے میں سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا پر مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی کے دوران اس رویے کی واضح مثالیں سامنے آئیں، جب ویڈیو گیمز کے مناظر کو جنگی کارروائیوں کے طور پر پیش کیا گیا۔ اسی طرح پولیو ویکسین کے خلاف من گھڑت کہانیاں تراشی گئیں، یا صحت عامہ کے دیگر منصوبوں کے بارے میں سازشی نظریات پھیلائے گئے۔ اس کے نتیجے میں عوامی صحت کے اداروں کے لیے وباؤں پر قابو پانا نہایت مشکل ہو جاتا ہے۔

یہ معاملہ صرف جھوٹی خبروں تک محدود نہیں رہا۔ واٹس ایپ اکاؤنٹس ہیک کر کے شہریوں کو لوٹا جاتا ہے، جعلی آن لائن ملازمتوں کے ذریعے پیسے بٹورے جاتے ہیں، حتیٰ کہ بینک اکاؤنٹس تک خالی کر لیے جاتے ہیں۔ پرائیویسی کا مسئلہ سنگین تر ہو گیا ہے اور کئی متاثرین ذہنی دباؤ کے باعث انتہائی اقدامات، حتیٰ کہ خودکشی تک پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ہنی ٹریپ، ہراسمنٹ اور بلیک میلنگ جیسے جرائم بھی اسی ڈیجیٹل فضا میں پنپ رہے ہیں۔

ان حالات میں ضروری ہے کہ صارفین ڈیجیٹل میڈیا پر آنے والی ہر خبر اور ہر کانٹنٹ کو شک اور سوال کی نظر سے دیکھیں۔ بصورتِ دیگر یہ ہتھیار کسی کو پلک جھپکتے میں ہیرو سے زیرو اور زیرو سے ہیرو بنا دیتا ہے۔ یہاں شہرت، مقبولیت اور قسمت جتنی تیزی سے حاصل ہوتی ہے، بدنصیبی بھی کئی گنا زیادہ تیزی سے پیچھا کرتی ہے۔

یقیناً اس ٹیکنالوجی کے مثبت پہلو بھی ہیں۔ پیشہ ور افراد اسے بروئے کار لا کر روزگار کما رہے ہیں، بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور نئی مہارتیں سیکھ رہے ہیں۔ مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ اسی ڈیجیٹل دنیا کے منفی رجحانات بچوں اور نوجوانوں کے بگاڑ کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ لازمی طور پر یہ دیکھیں کہ ان کے بچے کس نوعیت کا مواد دیکھ اور سیکھ رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ریٹنگ اور ریلز کی دوڑ میں اکثر ایسے منفی رجحانات کو “تفریح” کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جن میں جھوٹ، فریب اور چوری کی ترغیب دی جاتی ہے۔ کہیں کسی کو بریانی چوری کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے، کہیں ہوٹل پر بل ادا نہ کرنے یا دکان سے چوری کرنے کی “ترکیبیں” سکھائی جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر نئی نسل یہی رویے سیکھ کر جوان ہوگی تو ہمارا معاشرہ کس سمت میں جائے گا؟

بدقسمتی سے ملک میں کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں جو ان مسائل کا منظم اور مؤثر سدباب کر سکے۔ جین زی (Gen Z) کی نسل، جو ڈیجیٹل میڈیا کے ساتھ پلی بڑھی ہے، سب سے زیادہ میڈیا لٹریسی کی ضرورت رکھتی ہے۔ مگر ہم وقت کے تقاضوں کو سمجھنے میں ناکام رہے۔ آج جب ہر صارف خود ایک کانٹنٹ پروڈیوسر بن چکا ہے تو یہ صورتحال بالکل “بندر کے ہاتھ میں بندوق” کے مترادف ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں میڈیا اینڈ انفارمیشن لٹریسی کو لازمی مضمون کے طور پر شامل کیا جائے تاکہ نئی نسل محض صارف نہیں بلکہ باشعور، ذمہ دار اور محقق مزاج میڈیا یوزر بن سکے۔

مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کی آگ سے کوئی محفوظ نہیں رہا—نہ سیاست، نہ ریاست، نہ ادارے اور نہ ہی عام شہری۔ یہی وقت ہے کہ ہم اجتماعی طور پر میڈیا لٹریسی کو فروغ دیں تاکہ یہ طاقت معاشرتی بگاڑ نہیں بلکہ سماجی تعمیر کا ذریعہ بن سکے۔