انتظامیہ‘ عد لیہ اور مقننہ کسی بھی ریاست کے اہم اور بنیادی ستون ہوتے ہیں۔ اگر یہ تینوں عدم مداخلت کے اصول پر قائم رہتے ہوئے اپنا اپنا کام دیانتداری‘ ایمانداری اور خلوص کے ساتھ سر انجام دیں تو ایک ایسی فلاحی ریاست وجودمیں آتی ہے جس میں تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہو تے ہیں لیکن پاکستان میں عدم مداخلت کی پالیسی کو ان اداروں نے طلاق دے رکھی ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ ہما ری ریاست کے تینوں ستون میرٹ کے قتل عام میں برابر کے شریک رہے ہیں۔ نظریاتی طور پر ہم اسلامی جمہو ری ملک ہیں لیکن عملی طور پر یہا ں پر تقریبا پینتیس سال تک چار فوجی ڈکٹیٹروں نے بلا شرکت غیرے حکومت کی ہے اور باقی عرصہ بھی اسٹیبلشمنٹ کسی نہ کسی صورت میں ریاستی اداروں کو کنٹرول کرتی رہی ہے۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ نوبت یہاں تک کیسے پہنچی ہے
کیا فوج خودبخود آکر اقتدار پر قبضہ کرتی ہے یا اسے دعوت دی جاتی ہے یا حالا ت ایسے پیدا کر دئیے جاتے ہیں کہ فوج کے لیے ملک کا نظم ونسق سنبھا لنا لازم ہو جا تا ہے اور اس کا سا را ملبہ پاک فوج پر ڈال دیا جا تا ہے اور اسے بدنا م کرنے کے لیے جھوٹی پرو پیگنڈامہم چلائی جاتی ہے۔ہمیں یہا ں تک لا نے میں سب سے بڑ ا ہاتھ ہما رے سیا ستدانوں کا ہے پھر ہماری عدلیہ کی با ری آتی ہے
کیونکہ جب بھی فو ج نے اقتدار پر قبضہ کیا ہما ری اعلیٰ عدلیہ نے اسے فوراً تحفظ فراہم کر دیا دوسری طرف ہمارے سیاستدانوں کی ہمیشہ سے یہی کو شش رہی ہے کہ وہ میرٹ سے ہٹ کر کسی جنرل کو آرمی چیف مقرر کیا تو اُسی آرمی چیف نے اس سیا ستدان کی پیٹھ میں چھڑا گھو نپا۔جب ریاست پاکستا ن دنیا کے نقشے پر ابھری تو اس وقت جنرل سر فرینک منیسری کما نڈر انچیف تھے وہ انتہا ئی ایماندار‘ مخلص‘ مخنتی‘تجربہ کار اور پیشہ ور جنرل تھے لیکن ہما رے
وزیراعظم لیاقت علی خان نے اپنے سیاسی حواریوں کے کہنے اور بیرونی دبا ؤ پر ان کی بجا ئے جنرل ڈگلس کریسی کو گیا رہ فروری 1948کو آرمی چیف مقرر کر دیا۔ یہ وہی آرمی چیف تھے جنھوں نے 1948ء کی کشمیر کی پا ک بھا رت جنگ کے دوران فوجی دستے بھیجنے سے معذرت کی تھی، لیاقت علی خان نے ہی 1951ء میں اپنے وفادار جنرل ایوب خان کو میجر جنرل کے عہدے سے ترقی دے کر سات سینئر جرنیوں کو نظر انداز کر کے بری افواج کا کمانڈر انچیف مقرر کیا بعد میں گورجنرل غلام مہر خان نے 1953ء میں جنرل ایوب خان کو فو جی وردی میں ہی وزیر دفاع مقرر کر دیا
۔پھر وفادا ر سمجھے جا نے والے اس جنرل نے اپنے محسن گو رنر جنرل سکندر مرزا گو گھر بھیج کر اقتدار پر خود قبضہ کر لیا۔معاملہ عدالت میں گیا فیڈرل کو رٹ کے چیف جسٹس محمد منیرنے نظریہ ضرورت کی اصطلاح ایجا د کرتے ہو ئے ایوب خان کے اقدام کو درست قرار دے دیا اسی پریس نہیں اس کے بعد میں ایوب خان کے بنا ئے گئے 1962ء کے آئین کو بھی چیف جسٹس،جسٹس اے آرکا ر نیلیس نے جا ئز اور درست قرار دے دیا۔
جب ایوب خان کے قدم ڈگمگا ئے اور انہیں ڈیڈی کہنے والے ذوالفقار علی بھٹو کے قدم مضبوط ہو ئے تو ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں جنرل ایوب خان کے خلاف ایک بھر پور تحریک چلی جس کے نتیجے میں ایوب خان نے اقتدار اپنے قریبی عزیز اور وقت کے آرمی چیف جنرل محمد علی خان کے سپرد کر دیا۔ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا اس غیر آئینی فعل کے خلاف سپر یم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا
جسٹس حمودالرحمن نے اس مارشل لاء کو بھی جا ئز قرار دے دیا۔جب ذوالفقار علی بھٹو پا کستان کے وزیر اعظم بنے تو انہوں نے اپنے وفادار اور فر ما نبردار جنرل محمد ضیا ء الحق کو اُن سے سا ت سینئر جنرلز کو نظرانداز کر کے چیف آف آرمی سٹاف بنا دیا۔جنرل ضیا ء جنرل ضیا ء الحق نے 1977 ء میں اقتدار پر قبضہ کر کے ملک میں مارشل لا ء لگا دیا۔اس مارشل لاء کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انوار الحق نے تحفظ فراہم کیا
بعد میں ضیا ء الحق نے اپنے محسن ذوالفقار علی بھٹو کو جج صا حبان کی مدد سے پھا نسی پر لٹکو ا دیا۔محمد نواز شریف نے 1998ء میں اپنی دوسری وزارت عظمی کے دور میں تین سینئر جنرلز کو نظر انداز کر کے جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف بنا یا۔جنرل پرویز مشرف نے با رہ اکتوبر 1999ء کو محمد نو از شریف کا تختہ اُلٹ کر انہیں گرفتار کیا اور بعد میں جلا وطن کر دیا اور خود ملک کے چیف ایگزیکٹوبن کر بیٹھ گئے۔ وقت کے چیف جسٹس ارشاد حسن خان نے پرویز مشرف غیر آئینی فعل کو نہ صرف تحفظ فراہم کیا بلکہ انہیں آئین میں ترامیم کی اجازت بھی دے دی۔
محمد نواز شریف نے 2016میں اپنے تیسرے دور حکومت میں جنرل قمر جا وید باجو ہ کو ان سے تین سینئر جنرلز کو نظر انداز کر کے آرمی چیف بنا یا۔جنرل قمر جا وید باجو ہ عمران خا ن اور وقت کی سپریم کو رٹ سے ملی بھگت کر کے نو از شریف کو نہ صرف وزارت عظمی سے فارغ کروایا بلکہ سیاست کے لئے بھی نا اہل قرار دلوایا جب عمران خان وزیر اعظم بنے تو انہوں نے جنرل قمر جا وید با جو ہ کو تین سال کے لئے ایکسٹیشن دے دی۔ سپریم کو رٹ نے دخل اندازی کی تو تما م سیاسی جماعتوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹینشن کی خاطر آرمی ایکٹ میں ہی ترمیم کرڈالی
عمران خان کے دور میں باجوہ ڈاکٹرئن بہت مشہو ر ہو ا حتیٰ کہ ایک وقت یہ بھی آیا کہ عمران خان نے انہیں دوبا رہ وزیر اعظم بنوانے کے عوض تاحیا ت آرمی چیف بنا نے کی پیشکش کر ڈالی۔پھر بھی جنرل قمر جا وید با جو ہ نے پی ڈی ایم کی مدد سے عمران خا ن کے خلا ف تحریک عدم عتما د منظور کرواڈالی
جس کے نتیجے میں باجو ہ ڈاکٹر ائن والے جنرل قمر جا وید باجو ہ کو میر جعفر اور میر صادق جیسے القابات سے نو ازا گیا مو جودہ وزیراعظم محمد شہبا ز شریف نے2022میں جنرل عاصم منیر کو اپنا وفادار سمجھتے ہو ئے ان سے تین سینئر جنرلز کو نظر نداز کر کے آرمی چیف بنا یا وہ اس تعیناتی سے پہلے ریٹا ئر ہو نے والے تھے لیکن وفاقی حکومت نے اپنے خصوصی اختیارات کو بروئے کا رلاتے ہوئے انہیں آرمی چیف کا عہدہ دے دیا
اب پوری حکومت جنرل عاصم منیر کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتی اب مو جود ہ حکومت نے اپنی مرضی کا چیف جسٹس لگا نے اور عدلیہ کو اپنا فرمانبر داربنا نے کے لئے آئین پاکستا ن میں 26ویں ترمیم کرڈالی اورپارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر دو سینئر ججوں کو نظر انداز کر کے جسٹس یحیٰ آفریدی کو چیف جسٹس مقرر کر دیا ہے جب تک آرمی عدلیہ اور بیو رو کریسی میں سنیا رٹی کے اصول کو مد نظر نہیں رکھا جا تا
اپنے وفادار اور فرما نبردار افسر ڈھو نڈنے سے چھٹرکا رہ نہیں مل جا تا تب تک ہم ترقی نہیں کر سکتے کیو نکہ میرٹ کی حکمرانی میں ہی کسی ملک کی ترقی کا راز مفہوم ہے۔