131

مہنگائی کے طوفان سے غریب عوام کا جینا دوبھر

نگران وزیر اعظم کے حلف اٹھانے کے ساتھا ہی پٹرول کی قیمت میں سترہ روپے پچاس پیسے فی لٹر اور ڈیزل کی قیمت میں بیس روپے فی لٹر اضافہ کر دیا گیا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اس وقت پاکستانی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں مہنگائی کا رونا تو پہلے رویا جار ہا تھا کہ اب جو یکدم پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں اضافہ کیا گیا ہے اس سے عام آدمی کو سخت جھٹکا لگا دیا گیا ہے پچھلے چند برسوں سے ترقی پذیر ملکوں میں محنت کش و مزدور مسلسل بڑھتی مہنگائی سے سخت پریشان ہیں مہنگائی نے اہل پاکستان کو خصوصی طور پر نشانہ بنا رکھا ہے حتی کہ جاری مالی سال میں مہنگائی میں اضافے کے سارے ریکارڈ توڑ کر
رکھ دئیے ہیں

اس وقت پاکستان کا شمار دنیا کے ان پندرہ ملکوں میں ہوتا ہے۔ جہاں مہنگائی کی شرح سب سے بلند ہے پاکستان میں پیٹرول ڈیزل بجلی گیس کی قیمت بہت بڑھ چکی ہے کیوں کہ بیشتر ایندھن درآمد کیا جاتا ہے مقامی قدرتی گیس کی قیمت میں بھی دور اضافہ کیا جا چکا ہے ٹرانسپورٹ سے لے کر کارخانوں اور دفاترتک قومی معیشت کا ہر شعبہ ایندھن پر انحصار کرتا ہے اس لئے اس کے مہنگا ہونے پر ہر شے کی لاگت بڑھ جاتی ہے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ روپے کی گرتی ہوئی قدر بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بنتی ہے جب تک ملک میں معاشی سرگرمیوں میں تیزینہیں آئے گی اور برآمدات میں اضافہ اور اس کے برعکسدرآمدات میں کمی نہیں ہوگی

ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کا امکان نہیں ہمارے ملک میں یہ بات طے شدہ ہے کہ جیسے ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کیا جاتا ہے تو ضروریات زندگی کی ہر شے کی قیمت خود بخود بڑھ جاتی ہے ارباب اختیار اور برسر اقتدار طبقہ منگائی ہونے پر صرف اعداد و شمار کی جمع تفر یق کرتے ہیں اور مہنگائی کے پوشیدہ اثرات کسی کھاتے میں ریکارڈ نہیں ہوتے حکومت جانتی بھی ہے اور اسے باور بھی کر ایا جاتا ہے کہ مہنگائی ہونے کے باعث حکومت کے لئے عوامی جذبات کا گراف نیچے چلا جاتا ہے اور عوامی پذیرائی کے بجائے تنقیدو د شنام کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے لیکن یہاں حکومت کی مجبوری نہ دیکھنا بھی زیادتی میں شمار ہو گا ہم چونکہ زیر استعمال پٹرول کا ایک بڑا حصہ عالمی مارکیٹ سے درآمد کرتے ہیں

اس لئے عالمی مارکیٹ میں اگر پیٹرول اور ڈیزل مہنگے ہیں تو ظا ہر ہے کہ حکومت نے بھی مہنگا خرید کر مہنگا ہی بیچنا ہے ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے اپنے تیل کے ذخائر اور زمین اور سمندر کی تہ میں موجود اور محفوظ ہیں ہماری بد قسمتی ہے کہ یہ ذخائر ہمارے قدموں تلے ہونے کے باوجود ہماری اُن تک رسائی نہیں اور عوام کی مجبوری ہے کہ پٹرول ان کی زندگی کو چلانے کے لئے بھی ایندھن کا کام کرتا ہے پیٹرول کو ملکی معیشت کا ایندھن بھی قرار دیا جاتا ہے یعنی صرف پٹرول مہنگا نہیں ہوتا

بلکہ پٹرول مہنگا ہونے سے بالواسطہ طور پر ضروریات زندگی کی ہر شے مہنگی ہو جاتی ہے بجلی کے ماہانہ بلوں میں جو فیول ایڈ جسٹمنٹ چارجز وصول کئے جاتے ہیں وہ پیٹرول کی قیمت کے حساب سے ہی وصول ہورہے ہیں یعنی آج اگر پٹرول مہنگا ہوا ہے تو اس پٹرول سے بننے والی بجلی کی قیمت میں یہ اضافہ آئندہ بجلی کے بلوں میں درج کر کے وصول کیا جاتا ہے بجلی کی قیمت تو ایک مثال سے پیٹرول کی قیمت بڑھنے سے بنیادی اشیاء ضروریہ کی ہر شے مہنگی ہو جاتی ہے اور جو چیز پٹرول سے دور کی بھی نسبت نہ رکھتی ہو وہ بھی مہنگی ہو جاتی ہے قیمت بڑھنا کوئی نیا کام نہیں ہے عرصہ دراز سے یہ بات تجرے میں آرہی ہے کہ پٹرول مہنگا ہونے سے عام آدمی کی صرف معیشت کو ہی دھچکا نہیں لگتا

بلکہ اس کے ساتھ تو معاشرت بھی متاثر ہوتی ہے روپے بھی متاثر ہوتے ہیں
اور انسانی نفسیات کو بھی زد پہنچتی ہے اور ذہنی صحت بھی انحطاط کا شکار ہوتی ہے۔ مہنگائی صرف مہنگائی کو ہی جنم نہیں دیتی بلکہ یہ اپنے ساتھ بہت سے پوشیدہ عوامل بھی لاتی ہے جو بظاہر دکھائی نہیں دیتے اور ان کی گنتی بھی نہیں ہو سکتی لیکن یہ اثرات محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ پٹرول کی قیمت میں اضافے سے انسانی نفسیات، معاشرتی رویے اور انسانی مزاج متاثر ہوتا ہے مہنگائی کے بالواسطہ اور بلا واسطہ اثرات سے کہیں زیادہ سنگین اور نقصان دہ ہیں کسی ضروری ہے کی بڑھتی قیمت تو نظر آجاتی ہے لیکن اس بڑھتی قیمت کے پیچھے چھپی اخلاقی اقدار کا انحطاط، انسانی رویوں میں ترشی، ذہنی صحت کا بھائی خود غرضی،بدمزاجی اور بدکلامی جیسے اثرات بظاہر دکھائی نہیں دیتے لیکن یہ اپنا اثر ضرور دکھاتے ہیں اور یہی مہنگائی معاشرے میں کرپشن اور بد عنوانی کی طرف مائل
کرنے کا باعث بنتی ہے جب معیار زندگی تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہو اور امیر و غریب کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہو ترقی پانے کے راستے محدود ہوں اور خاندانی ذمہ داریوں کا بوجھ کمر توڑے جا رہا ہو تو ایسے میں سیدھے راستے سے پھسلنے کا ہمہ وقت خدشہ موجودہ شاہ ھے اور غربت جرائم کی طرف مائل کرتی ہے اس اور یہ مہنگائی ہمیں بہت ہی مہنگی پڑتی ہے ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے غریب عوام دو وقت کی روٹی سے محروم ہو گئے ہیں مافیا ز اشیائے خوردونوش اور روز مرہ کے استعمال کی اشیاء کو نا جائز طور پر ذخیرہ کرکے مصنوعی بحران پیدا کر رکھا ہے جس سے ایک جانب عوام کی قوت خرید شدید متاثر ہو رہی ہے

تو دوسری طرف آٹا چینی گھی تیل سبزیاں گوشت انڈے اور دیگر اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں سو فی صد سے زیادہ اضافہ ہو گیا ہے غریب عوام جن کی آمدنی قلیل اور محدود سے انہیں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کبھی چینی اور کبھی آٹے کا بحران پیدا کر کے ان کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے اور کبھی بجلی گیس اور پیٹرول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگ جاتی ہیں جس سے غریب
عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں پاکستان میں تقریباً پچاس فی صد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اوپن مارکیٹ میں ڈالر تین سو روپے سے بھی تجاوز کر گیا ہے تو کیسے معیشت کی بہتری غربت میں کی، آمدنی اور روزگار میں اضافہ کی امید بندھی جاسکتی ہے

جس رفتار سے پاکستان معاشی ترقی کر رہا ہے اس سے مہنگائی کا گراف مزید اوپر جائے گا بڑے پیمانے پر ترقی کی شرح کم ہو جائے گی زراعت و تجارت سست روی کا شکار رہیں گے ٹیکسوں کی وصولی کم اور اخراجات میں اضافہ ہوگا حکومت بس صرف اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بڑھا کر اپنا ریونیو اکٹھا کرنے کا ہدف پورا کر رہی ہے لیکن اس کا اس بات کی جانب ذرہ بھی دھیان نہیں ہے کہ ان اقدامات کے عام آدمی کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ان تمام پریشانیوں اور مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے
حکومت کو چاہیے کہ وہ پٹرول اور ڈیزل پر حالیہ اضافہ فوری طور پر واپس لے بلکہ ممکن ہو تو اس حوالے سے سبسڈی فراہم کرے ناکے عام استعمال کی یہ اشیاء عوام کی قوت خرید کے دور ر ہیں اور اس کی وجہ سے عوامی سطح پر مسائل کے بڑھنے کا خدشہ ختم ہو جائے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں